بیس برس کی ریاست اور نو سالہ شہری


پہلے ہی کہتا چلوں کہ یہ موضوع اک لمبی تحقیق اور طویل گفتگو کا متقاضی ہے، مگر اپنے آس پاس ہونے والی پے در پے گفتگو اور واقعات کے تناظر میں بنتا پاکستانی شہریوں کا بیانیہ اس مختصر مضمون کی وجہ بنا۔ خادم اس موضوع پر ہم سب کے “برقی صفحات” کے ذریعے مزید گفتگو کے لیے حاضر ہے اور میرے خیال میں یہ اک عمدہ بحث کا نقطہء آغاز بھی ہو سکتا ہے جو پڑھنے والوں کے لیے سوچ کے چند نئے زاویئے بھی فراہم کرے۔

میں، ذاتی طور پر، اک مضبوط اور مرکزی ریاست کا حامی ہوں، اور یہ خیال کسی رومانویت سے جنم نہیں لیتا، ان سیاسی، معاشی اور جغرافیائی حقیقتوں سے جنم لیتا ہے جس میں پاکستانی ریاست خود کو گھِرا ہوا، درست یا غلط طور پر، پاتی ہے۔ درست یا غلط، یہ اک دوسری بحث ہے، مگر ریاست بطور اک Rational Actor اپنے تئیں کبھی بھی غلط فیصلہ نہیں کرتی اور اس کے تمام فیصلے اپنی سیاسی، معاشرتی، جغرافیائی اور سیکیورٹی مفادات کے تحت ہوتے ہیں۔ یہ میرا شعوری خیال ہے۔

میرا رومانوی خیال مگر یہ ہے کہ ریاست کم سے کم ہونی چاہئیے اور اک وفاقی حکومت کے پاس صرف خارجہ، دفاعی اور محدود معاشی معاملات ہونے چاہئیں، جبکہ اختیارت بھرپور طریقے سے شہری حکومتوں کے پاس موجود ہوں جہاں وہ اک دوسرے کے ساتھ مقابلے کی فضا قائم رکھتے ہوئے گلیوں اور محلوں کی سطحوں تک بہترین Service Delivery کریں۔ اور اس سروس ڈیلیوری کے معاملہ میں شہری حکومتیں صوبائی حکومتوں سے بھی زیادہ طاقتور ہوں، جبکہ صوبائی حکومت کا بنیادی کردار، ان شہری حکومتوں پر وہی ہو جو اک محدود وفاقی حکومت کا صوبائی حکومتوں پر تجویز کردہ ہے: خارجہ، دفاعی اور محدود معاشی معاملات کا کنٹرول۔

رومانویت اور حقیقت کی اس جنگ میں، پاکستان جیسے ترقی پزیر معاشروں میں، جو کہ اک Conflict Prone خطہ میں واقع ہوں، کیا رومانویت کی جیت ممکن ہے؟ میرے خیال میں اک سچا جواب آپ کو بھی معلوم ہے۔

اسلام آباد میں، میرے اک (عمر میں) جونئیر، مگر قابلیت میں سینئیر دوست، احمد علی کاظمی ہیں۔ ان سے اس موضوع پر کچھ عرصہ قبل اک نشست ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اک بہت مشکل مقدمہ ہے جو جذباتیت کی فضا میں لڑا جا سکتا ہی نہیں۔ گفتگو کرتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا کہ کیا مجھے اس خیال کو رکھنے کا بھی حق حاصل نہیں؟ اس بات پر ہم دونوں کا اتفاق ہوا کہ مقدمہ بھلے مشکل ہو یا آسان، خیال اگر پرامن اور مہذب طریقے سے رکھا اور بیان کیا جائے تو اس میں کسی کا کوئی نقصان نہیں، اور اس پر بھی خیر سے اتفاق ہوا کہ شور ڈالنے والوں کا قبیلہ بن جاتا ہے کہ اکثریت جذباتیت میں شور کی حامی بن جاتی ہے تو منطق و دلیل کی بنیاد پر بات کرنے والے کی آواز دب جاتی ہے۔

میرے اس شریر دوست نے پھر میرا مقدمہ اپنے کئی ایسے دوستوں کے سامنے، میرے علم میں لائے بغیر، لڑا جس میں یار لوگوں کی اکثریت مجھے حکومتی ایجنسیوں کا ایجنٹ ثابت کرنے پر تیار تھی، اور ساتھ میں اپنے چند اک شیعہ دوستوں کے سامنے بھی میرا مقدمہ لڑا جو مجھے طالبان کے ہمدرد کے طور پر مارکیٹ کر رہے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ہیئت مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ) کے دامن پر فاش غلطیوں کی اک لمبی فہرست کے دھبے شامل ہیں، اور کئی غلطیاں تو ایسی ہیں کہ ان پر مسلسل اصرار کی کیفیت بھی طاری رہی، اور طاری ہے، اور طاری رہے گی بھی۔ مگر اس خیال سے اتفاق کرنا مجھے اپنی ذات کے حوالے سے مشکل محسوس ہوتا ہے کہ وہ فیصلے کرتے وقت، اس وقت پاکستان کے ذمہ داران نے یہ سوچا ہو گا کہ “جناب، یہ فیصلہ کرتے ہیں، اور لازمی کرتے ہیں، کیونکہ اس سے پاکستان کو بہت بڑا نقصان ہو گا!” ریاستی اقدامات درست ہوں یا غلط، اس کا حتمی فیصلہ تو تاریخ کرتی ہے اور آنے والی نسلیں اس تاریخ پر موجود اور مہیا مواد کی بنیاد پر ہی اپنی ذہن سازی کرتے ہوئے، سیاسی جمہوریت کے ذریعے دو کام کرنے کی کوشش کرتی ہے: کہ ریاست ایسے فیصلے دوبارہ نہ کرے، اور ہو جانے والے فیصلوں کے برے اثرات سے ہرممکن نبٹا جا سکے۔

شہری، صرف اور صرف، سیاست کے ذریعہ سے ہی ریاست کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور انکے آدرشوں اور خوابوں کی تشریح مختلف سیاسی جماعتیں اور رہنما کرتے ہیں۔ یہ تشریح، اک بار پھر، اک رومانوی خیال میں سویلین بالا دستی کے بغیر ممکن ہی نہیں، مگر کیا کیجئے ان میکاویلین حقائق کا جس میں سویلین بالادستی کا خواب ابھی اک خواب ہے، اور اک بہت لمبا عرصہ خواب ہی رہے گا۔

تو کیا اس لمبے عرصے میں کہ جب یہ خواب، اک خواب ہی رہے گا، حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر، مسلسل ردعمل اور شورش کی ہی کیفیت بھلی ہے؟ اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

بات کو سمیٹنا چاہتا ہوں، تو کہتا ہوں کہ پاکستانی ریاست کا مزاج مضبوط قد، کاٹھ اور بڑے ہاتھوں والے اک بیس سالہ نوجوان کی طرح کا ہے جو ابھی تک پانچویں جماعت کا طالبعلم ہے، جب کہ اکثریتی شہری، ابھی نو سال کی عمر میں ہیں، اور اسکے ہم جماعت ہیں۔ اس بیس سالہ نوجوان سے معاملہ فہمی کی فضا بہ نسبت کہیں بہتر ہے بجائے کہ اس سے لڑا جائے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اک رومانوی جواب کا آنا بھی ممکن ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ پانچویں جماعت کے تمام بچے اکٹھے ہو کر اس بیس سالہ نوجوان کی “ڈھیں پٹاس” کر دیں۔ یہ ممکن اس لیے نہیں کہ ان بچوں میں سے بہت سارے، بلکہ اکثریتی اس نوجوان سے الجھنا ہی نہیں چاہتے۔ پھر یہ بھی کہ پانچویں جماعت کا استاد، سکول کا ہیڈ ماسٹر اور دیگر سٹاف بھی اس بچے کے ساتھ اپنے مفادات جڑے ہوئے دیکھتے ہیں۔

میری ریاست کی داخلی پالیسی ہو کہ جس میں ملائیت کو فروغ دیا گیا اور وہ بوتل سے نکلا اک خونخوار جِن بن گئی، میری ریاست کی خارجہ پالیسی ہو جس میں افغانستان کا اک پھوڑا مسلسل موجود رہتا ہے (ویسے خیال یہ چھوڑے جاتا ہوں کہ افغانستان کے پاس اگر موقع ہوتا، تو کیا وہ پاکستان کو Spare کرتا؟ کبھی کیا بھی ویسے جہاں جہاں موقع ملا؟)، میری ریاست کی سیاسی پالیسی ہو کہ جس میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا سرکس ابھی تک جاری ہے، یا ریاست کے فریم ورک میں سیاست کا معاملہ ہو جس میں مشاہد حسین سید پندرہ برس بعد مسلم لیگ نواز میں شامل ہو جاتے ہیں اور عمران خان نیازی صاحب کو بذریعہ سیٹھ میڈیا کے مسلسل بیانیہ کی بنیاد پر اک عظیم رہنما کے منصب پر بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور ان جیسے دیگر کئی معاملات۔۔۔ یہ سب کا سب اس زمان و مکاں کے معروضی اور موجود حالات کی پیداوار کے طور پر حقائق کے فریم ورک میں ہی موجود ہوتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر ہی فیصلہ سازی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔

باقی آپ جذباتی نعرے مارنے میں آزاد ہیں۔ بسم اللہ!

مکرر: خادم اس موضوع پر گفتگو کے لیے بذریعہ ہم سب حاضر و موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).