مردان کے غازی کون سا معرکہ مار کے لوٹے ہیں؟


مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام میں قتل کیے جانے والےمشال خان کیس میں کل جب عدالت کی طرف سے 26 لڑکوں کی رہائی کا حکم ہوا تو ان ملزمان کی مردان واپسی کے وقت مذہبی سیاسی پارٹیوں نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں جن افراد کو بری کیا ہے ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے یہ لوگ دلیل دے رہے ہیں کہ چونکہ عدالت نے ان کو بے گناہ قرار دیا ہے، اس لیے ان کا استقبال کیا گیا۔

اگر عدالت کا چند ملزمان کی رہائی کا فیصلہ ٹھیک ہے تو اوروں کو سزا دینے کا فیصلہ بھی اس دلیل پر خوشی سے قبول کیا جانا چاہیے مگر یہاں تو باقی سزا یافتہ مجرموں کو بھی رہا کروانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔

عدالت کی طرف سے رہا ہونے والے افراد کو غازی اور ہیرو کا درجہ کس بنیاد پہ دیا جا رہا ہے؟

ایک امکان یہ ہے کہ یہ اس قتل میں ملوث ہی نہیں تھے اور اس وجہ سے بری بھی کر دئے گئے۔ ایسی صورت میں ان کے ”مجاہد اور غازی“ ہونے کا سوال کیوں پیدا ہوا اور انہیں یہ ”تمغہ“ کیوں دیا جا رہا ہے؟

دوسرا امکان یہ ہے کہ یہ لوگ مشال خان کے قتل میں ملوث تھے۔ چنانچہ اگر یہ ان کے نزدیک کوئی قابل فخر کارنامہ تھا تو انہوں نے عدالت میں اس قتل میں ملوث ہونے کی تردید کیوں کی اور اس کا اقرار کیوں نہیں کیا تھا؟

تاہم عجب ہے کہ عدالت میں ان کے انکار اور اپنی بے گناہی کے حلف اٹھانے اور اس کے لیے دلائل دینے کے بعد جب ان کو بری کیا گیا تو پھراپنے استقبال کے موقع پر انہوں نے یہ عزم کیوں کیا کہ آئندہ بھی اگر کسی نے ایسی ”گستاخی“ کا ارتکاب کیا تو اس کے ساتھ بھی یہی کچھ کریں گے؟

ایک سوشل میڈیا تبصرہ نگار کے بقول ”قاتل وکیل کے ذریعے اپنی بے گناہی ثابت کر کے بری ہونے کے بعد اعلان کر رہا ہے کہ قاتل تو وہی تھا ۔ چنانچہ اب عدالت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرلینی چاہئے“۔

جن افراد کو مشال خان کو قتل کرنے پر پھانسی اور قید کی سزائیں سنائی گئیں، پھر ان کو رہا کروانے اور شہادت سے بچانے کے لیے دھوڑ دھوپ کرنے کی کیا تک ہے؟

ان کی رہائی پر خوشی کیا اس لیے ہو رہی ہے کہ انہوں نے”گستاخ مشال خان“ کو قتل کرکے ”کارنامہ“ بھی انجام دیا ہے اور عدالت سے بری بھی ہو گئے؟

جےآئی ٹی رپورٹ میں مشال خان کو توہین رسالت کے الزام سے کلیر کیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود مذہبی سیاسی پارٹیوں کے مقامی رہنما اسے قصوروار ثابت کرنے پر تلے ہوۓ ہیں۔

شاید وہ سمجھتے ہیں مشال خان کو ”گناہگار“ ثابت کرکےیہ ماوراۓ عدالت قتل جائز ہو جاۓ گا یا چونکہ مشال خان ان کے خیال میں توہین رسالت کے مرتکب ہوۓ تھے اس لیے ان کے قتل میں کسی بھی طرح حصہ لینے والے بڑے عظیم لوگ ہیں جو کسی سزا و تنقید کے نہیں بلکہ داد و تحسین اور انعام واکرام کے مستحق ہیں۔

اگر یہی ان کی سوچ ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ کسی نظام، قانون اور آئین کو نہیں مانتے مگر کیا یہ بات یہ لوگ واضح طور پر کہہ سکتے ہیں؟

جماعت اسلامی تو صوبائی حکومت میں اتحادی ہے تو کیا اسے اپنی ہی حکومت کے پولیس کی تفتیش بھی قبول نہیں جس نے مشال خان کو بےگناہ اور ان کے قتل میں حصہ لینے والوں کو قصوروار ٹھہرایا تھا؟

جماعت اسلامی کے ساتھ دیگر مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے لوگ بھی استقبال میں موجود تھے۔ جے یو آئی کے لوگ تو سٹیج بھی سنبھالے ہوۓ تھے۔ مگر انہوں نے استقبال کے لیے جماعت کی طرح پوسٹیں نہیں لگوائیں۔

یوں اگرچہ صرف جماعت اسلامی ہی اس استقبال کے موقع پرتنقید کا ہدف رہی مگر حقیقت یہ ہے تقریباً تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیوں اور پیشہ ورانہ تنظیموں کے مقامی ذمہ داران نے اس ”کارخیر“ میں حصہ لیا ہے۔

اور یہ اتفاق اور باہمی اشتراک صرف ملزمان کے پرجوش استقبال اور اس میں تقاریر تک محدودنہیں ہے بلکہ اس سے پہلے جب مشال خان قتل کیے گۓ تو بھی جماعت اسلامی جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت تقریباً سب ہی پارٹیوں کی مقامی تنظیموں نے اپنی ملکی یا صوبائی ذمہ داران کی پالیسی کے برعکس نہ صرف مشال خان قتل کے ملزمان کی رہائی تک اکٹھے تحریک چلانے کا وعدہ کیا تھا بلکہ مشال خان کو ”توہین رسالت کا مرتکب اور مرتد“ ثابت کرنے کے لیے مشترکہ طور پر ایک پمفلٹ بھی شائع کیا تھا۔

یاد رہے جماعت اسلامی کےامیر سراج الحق نے مشال خان کے قتل کی مذمت کی تھی جبکہ اے این پی کے سربراہ نے بھی اپنے مقامی رہنماٶں کو مشال خان قتل کے ملزمان کی کسی بھی طرح حمایت سے سختی سے منع کیا تھا۔

انہی دنوں ایک بڑی سیاسی پارٹی کے ایک اہم رہنما، جوصوبائی وزیر رہے ہیں اور دانشور بھی ہیں، نے بھی جب مشال خان کے قتل کی حمایت یہ کہتے ہوۓ کی کہ ”اس نے واقعی توہین رسالت کا ارتکاب کیا تھا“ تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔

اس اتحاد اور اشتراک کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ مشال خان کو قتل کرنے والوں میں جماعت اسلامی، اے این پی اور تحریک انصاف وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی زیر تفتیش لائے یا گرفتار کئے گئے اور یا اب قصوروارقرار دیے گئے ہیں۔

اس استقبال کے لیے جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا پیج پر ضلعی امیر کی طرف سے عوام کو آنے کا دعوت نامہ جاری ہوا جس میں ان ملزمان کو غازی قرار دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں پیج پر ان کا ایک انٹرویو اور مشال خان کو ”گناہگار“ ثابت کرنے کے لیے مواد کے لنکس بھی اپلوڈ کیے گۓ تھے۔

بعد میں بظاہر شدید ردعمل کی وجہ سے پارٹی کے پیج سے امیر صاحب کی ان رہا شدہ افراد کے استقبال کے موقع پر انٹرویو کی ویڈیو ،اس پر کئے گئے سارے کمنٹس اور مشال خان کو گناہگار ”ثابت“ کرنے والے تمام لنکس متعلقہ کمنٹس سمیت ہٹا دیۓ گئے۔

مشال خان کے خلاف جو پمفلٹ شائع کیا گیا اس میں اس سےمنسوب زیادہ تر مبینہ قابل اعتراض اور گستاخانہ کمنٹس ایک ہی تاریخ اور ایک ہی وقت پہ کئے گئے دیکھے جا سکتے تھے۔۔ یہ بذات خود اس پمفلٹ کے مندرجات کو مشکوک بنانے والی بات تھی۔ تاہم رہی کسر اس قتل کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ نے پوری کردی کہ مشال خان توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہی نہیں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).