لندن رہنے والوں نے بھی سفر آخرت شروع کر دیا


2018بھی کیسے کیسے رشتوں کے ٹوٹنے کی کہانیاں سامنے لایا ہے۔ ابھی ہم لوگ منو بھائی کے بارے میں دن رات باتیں کر رہے تھے کہ ایک دم سب کو چپ لگ گئی، سب حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ وہ شخص جو شاعر تھا، برطانیہ کا شہری تھا، جرمن خاتون سے شادی کر کے نازاں تھا کہ وہ خاتون اس کی اور اس کے دوستوں کی کس قدر خدمت کرتی ہے۔ اب جو آنکھیں کھول کے غم و اندوہ میں ایک دوسرے کو دیکھا تو کھلا اپنے پاس تو اب کچھ بھی نہیں رہا۔ میں ذکر کر رہی ہوں اپنے دوست ساقی فاروقی اور اس کی بیگم گنڈی کا۔ تین برس پہلے جب میں لندن گئی تو ساقی کو دیکھنے جاوید شیخ کے ساتھ گئی۔ گنڈی نے ہماری بڑی خدمت کی، جاوید کی بیگم نے کباب بنا کر بھیجے تھے۔ ہم لوگوں نے مل کر کوئی دو گھنٹے بہت باتیں کیں۔ بس یہ تین برس یوں مختصر ہوئے کہ گزشتہ سال گنڈی کا کینسر شناخت ہوا۔ ایسا کہ اب وہ بیمار ساقی کی خدمت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ دونوں ’’بوڑھوں کے گھروں‘‘ میں منتقل ہو گئے۔ دو ماہ پہلے گنڈی نے زندگی سے رہائی حاصل کر لی اور اب جمعہ کی رات ساقی کو سانس کی تکلیف ہوئی۔ اسپتال لے کر جا رہے تھے، اس نے پہلے ہی رخصت چاہی۔

وہ اکیلا ایسا شاعر تھا کہ بیک وقت جمال احسانی اور ن۔م راشد دونوں کا دوست تھا۔ دوست تو میرا اور زہرہ نگاہ کا بھی تھا مگر جیسے وہ افتخار عارف اور احمد فراز کے ساتھ فقرے بازی اور شعربازی کیا کرتا تھا، وہ ان کے ساتھ تحریر میں بھی چونچیں لڑانے والا منظر کیا کرتا تھا۔ وہ احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کی صلح کرانے کی بھی کوشش کرتا رہا۔ بظاہر صلح بھی ہو گئی مگر وہ پرانا پنجابی کا محاورہ ’’پنڈ دے منڈے نئیں جیون دیندے‘‘ دونوں طرف خوب آگ بھڑکی اور زندگی بھر یوں ہی الگ الگ دونوں اسکول آف تھاٹ مرتے دم تک اپنی رقیبانہ روایت پر قائم رہے۔ ساقی نے راشد صاحب کی وفات کے بعد بہت ہی اچھا مضمون لکھا تھا۔ تنقیدی مضامین کی بھی دلچسپ ایک کتاب مرتب کی تھی۔ یہ مضمون بالکل الگ نوعیت کے تھے۔ تین شعری مجموعے مگر تینوں الگ اٹھان رکھے ہوئے تھے۔

ساقی کو پہلے کچھوا پالنے کا شوق ہوا۔ بیک گارڈن میں اس کیلئے چھوٹا سا تالاب بنایا۔ اس کی خاطر مدارات کرتا رہا۔ بہت دن نہیں بہت سال نہ جیا۔ آخر کو اس کی باقاعدہ قبر اپنے گارڈن میں بنا ڈالی۔ اب اس کا عشق کتّے کے ساتھ چلا، وہ بھی کئی سال تک، اس نے ان دونوں پر نظمیں بھی لکھیں۔ کتّے کی بھی باقاعدہ قبر بنائی۔ اب آگے بڑھے تو بلّے پالے، دونوں کی باتھ روم ٹریننگ کروائی اور دونوں کیلئے ناشتہ اور کھانے کا خود بندوبست کرتا تھا۔ آخر میں اس کی بیماری کے زمانے میں بس ایک بلّا شیر خان رہ گیا تھا۔ ساقی نے انگریزی میں بھی شاعری کی۔ ایک مجموعہ بھی شائع ہوا۔ لندن میں رہنے والے سارے لکھنے والوں کا وہ گرو تھا۔ ہم لوگوں میں سے جو بھی لندن جاتا اسکے گھر سب آ جاتے۔ کھانے کا انتظام ارشد لطیف کے ذمہ ہوتا، باقی ہر طرح کے مشروبات کا انتظام وہ خود کرتا۔ صبح دس بجے سے شام ڈھلے تک شعرو شاعری، بحث اور لندن میں رہنے والے شاعروں کو مشورے بھی کھل کر دیتا تھا۔

مصطفیٰ شہاب ہوں کہ یشب، سب کیساتھ اسکی محبت بالکل اپنوں کی طرح تھی۔ بس ایک ڈاکٹر کی بات مانتا تھا، وہ تھے اور ہیں جاوید شیخ، اللہ ان کو سلامت رکھے۔ وہ ہر آنے جانیوالے ادیب، جوش صاحب سے لیکر نارنگ صاحب یا پھر ہم جیسے سب کیلئے جاوید کا گھر کھلا تھا اور ماشاء اللہ کھلا ہے۔ ساقی کے قل بھی جاوید کے گھر میں ہوئے اور اس کی تدفین کا انتظام بھی سارے دوستوں نے ساقی کے گھر کے قریب قبرستان میں کیا۔ اب لندن کے میئر نے یہ کر دیا ہے کہ ہر علاقے کے قبرستان میں مسلمانوں کیلئے ایک قطعہ الگ کر دیا ہے۔

ہمارے یہاں اسلام آباد میں بھی کم ازکم چاروں سیکٹروں کو ملا کر قبرستان کا اہتمام کر دیا جائے تو سی ڈی اے والوں سے سفارشیں کروا کر قبر کی جگہ نہ تلاش کرنی پڑے۔ لاہور گئی تو منو بھائی کیلئے تھی مگر بہت دن سے ارادہ کیا ہوا تھا کہ انور سجاد کو دیکھنے جائوں گی۔ اگلے دن اصغر ندیم سید کے بتائے ہوئے پتے پر بہ مشکل انور کا گھر دریافت کیا۔ یہ چھوٹا سا گھر بہت پرسکون ہے کہ یہاں اس کی بیوی رتی موجود تھی اور اس کی دن رات خدمت کر رہی تھی۔ رتی ہرچند کینیڈا میں پلی بڑھی مگر ایسی پتی ورتا کہ زندگی کے اس مشکل مرحلے میں جب بچّہ بوڑھا ایک ہو جاتے ہیںرتی انور کو اٹھانے بٹھانے سے لیکر ہر وقت اس کی مدارات کرتی ہے۔ اخبار پڑھ کے سناتی، اس کی یادداشتیں لکھتی، اپنی بے ساختہ بے وزن شاعری بھی لکھتی اور وہ مسکراہٹ زندگی کی کئی کڑوی کروٹوں کے باوجود رتی کے ہونٹوں پر رہی۔ زندگی کے اس لمحے میں ادارے نے اپنے خاندان کے فرد کی حیثیت سے اور پھر دوسرے اداروں نے بھی بڑے خلوص سے سارے اخراجات اور ڈاکٹروں کا خرچہ اٹھایا ہوا ہے۔

ہمارے ملک میں ’’بوڑھوں کے مرکز‘‘ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہباز شریف جنہوں نے لاہور کی رنگ روڈ کے ساتھ کئی نئے شہر آباد کئے ہیں، وہاں انہیں بھی کوئی ایک نمائندہ ’’بوڑھوں کا مرکز‘‘ قائم کرنے کا خیال شاید اس لئے نہیں آیا کہ وہ تو خود اپنا علاج کرانے لندن چلے جاتے ہیں مگر یہ خیال ان کی بیگم تہمینہ درانی کو تو پہلے نہیں آیا اب تو آنا ہی چاہئے کہ بوڑھوں کی قطار میں، میں بھی کھڑی ہوں۔ اپنے شوہر کو بھی بتائو کہ بہت اچھے کاموں کو بہت بری بری باتوں سے ضائع نہ کریں۔ ویسے اب جبکہ فرانس اور جرمنی میں باہمی تنازعات ختم کرنے کی رو چلی ہے تو یہ پہلے کریں کہ سیاسی جماعتوں کو اخلاقی لائحہ عمل طے کرنا چاہئے پھر آگے بڑھیں تو افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ انسانی اوراخلاقی سطح پر بات چیت کو آگے بڑھانا چاہئے۔ ہمارے ملکوں کی لفظیات تک برباد ہو گئی ہے بلامقابلہ لوگوں کو مارنا بھی اب واشگاف ہو چکا ہے۔ کہنے کو قاتل پکڑا گیا۔ کیسے، کہاں سے؟ ارے ہمیں ہر بات پر شک کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ زینب! تو نے اور کچھ سن کے فریاد نہیں کرنی کہ میں تمہارا نوحہ لکھ کر کھوکھلی ہو چکی ہوں۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).