عاصمہ جہانگیر، ایک عظیم انسان دوست اور محب وطن عورت


جب جنرل یحیی خان نے مارشل لا لگایا تھا تو احتجاج کرنے والوں میں عاصمہ جہانگیر آگے تھیں۔ وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرنے لگیں۔ وہ اس حقیقت کو جانتی تھیں کہ پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لئے جمہوریت ناگزیر ہے۔

جب جنرل ضیا الحق کی جمہوریت کش حکومت آئی جس نے آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کے پرخچے اڑائے اور ہر طرف جنرل صاحب کے تنگ نظر سعودی و جماعتی انداز کے نظام کے نعرے گونجنے لگے تو اس موقعے پر دوبارہ یہی دلیر خاتون سامنے آئیں اور جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کی۔ حالانکہ جنرل ضیا کے دور میں ایسا کرنے والوں کو شاہی قلعے بدترین عقوبت خانے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جب جنرل صاحب حدود آرڈیننس نافذ کر کے قوم کو صالح بنا رہے تھے اور خواتین کو زبردستی چادر پہنا کر چار دیواری میں محبوس کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تو یہی عاصمہ جہانگیر تھیں جنہوں نے چار دیواری سے قدم باہر نکالا اور ویمن ایکشن فورم نامی تنظیم کے ساتھ باہر مال روڈ پر نکل آئیں۔ یہ ویمن ایکشن فورم کا زنانہ جلوس ہی تھا جس نے جمہوریت کے نام پر جدوجہد کرتے ہوئے جنرل صاحب کی جابرانہ آمریت کو ہلا کر رکھ دیا۔

اسی دور میں بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے نام پر بھی انہوں نے عدالت کا رخ کیا۔ عاصمہ جہانگیر خود بتاتی ہیں کہ معزز جج صاحبان نے ان سے پوچھا کہ بی بی ان بدبودار لوگوں کو عدالت میں کیوں لائی ہیں، تو عاصمہ جہانگیر نے ان کو بتایا کہ آپ ان کے لئے ہی یہاں موجود ہیں اسی لئے لائی ہوں۔

عاصمہ جہانگیر کی ان پریشان کن سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ڈکٹیٹر جنرل ضیا کی مجلس شوری نے ایک قرارداد پاس کی کہ عاصمہ جہانگیر پر بلاسفیمی کا مقدمہ چلایا جائے کیونکہ انہوں نے کچھ الٹی سیدھی بات کی ہے۔ تحقیقات کے لئے کمیشن بنا دیا لیکن اس اجلاس کی تمام کارروائی ٹیپ ہوئی تھی جس کے ریمارکس کی بنیاد پر یہ مقدمہ بنایا جا رہا تھا اور اس میں ایسا کچھ نہیں نکلا تھا جس کا الزام لگایا گیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر نے ایک انٹرویو میں کچھ ہنستے ہوئے ہی بتایا تھا کہ بلاسفیمی لا کی ”دفعہ 295 سی“ شاید ان سے نمٹنے کے لئے ہی نافذ العمل کی گئی تھی۔

بہرحال یہ دفعہ نافذ ہوئی تو عاصمہ جہانگیر بلاسفیمی کے ان ملزموں کے کیس بھی لینے لگیں اور سلامت مسیح کے مشہور کیس میں اس پر لگا الزام غلط ثابت کر کے اسے بری بھی کرا دیا۔ رجعت پشند دہشت گرد عناصر عاصمہ جہانگیر سرگرمیوں سے تنگ آ گئے تو انہوں نے عاصمہ جہانگیر کے گھر پر حملہ کیا مگر غلطی سے ان کے گھر کی بجائے ساتھ والے گھر میں گھس گئے جو کہ ان کی والدہ کا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کی بجائے ان کی بھابھی کو گولی مارنے کی کوشش کی مگر پستول نہ چل سکی اور سیکیورٹی گارڈز کے آنے کی وجہ سے وہ ناکام ہو گئے۔
ویمن ایکشن فورم کے جمہوریت اور انسانی حقوق کی خاطر کیے جانے والے اس مسلسل احتجاج پر تنگ آ کر جنرل ضیا نے عاصمہ جہانگیر کو جیل بھیج دیا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب دفاع افغانستان میں مصروف مجاہدین کو جنرل صاحب پکڑ پکڑ کر مسنگ کر رہے تھے تو اچھے بھلے مجاہد قسم کے وکلا اور محب وطن عناصر ڈر کر خاموش ہو گئے مگر انسانی حقوق کی یہ عظیم چیمپئن کیسے برداشت کر سکتی ہیں کہ انسانوں پر کوئی ظلم ہو۔ وہ ان مسنگ پرسن کے کیس لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کا کیس خاص طور پر مشہور ہے۔ ان کی وکالت بھی عاصمہ جہانگیر ہی نے کی۔ خود کو نیک، محب وطن اور سمجھدار کہنے والے لوگ اس کیس سے دور ہی رہے اور صرف عاصمہ جہانگیر ہی اتنی دلیر نکلیں کہ زندگی میں تیسرے ڈکٹیٹر کے سامنے کھڑی ہوئیں۔

جب 2009 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت نے پی سی او ججوں کی برطرفی کا بہترین فیصلہ کیا تو یہ عاصمہ جہانگیر ہی تھیں جو مقبولیت کی بلند لہر پر سوار طاقتور ترین چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کے اس حد تک خلاف ہو گئیں کہ ان کے خلاف ڈان میں ایک مضمون ہی لکھ ڈالا۔ اگلے دن ان کے ساتھیوں نے انہیں بہت سمجھایا کہ چیف جسٹس کے حامی وکلا ان کا موقع پر ہی انصاف کر سکتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی بار روم چلی گئیں۔

2010 میں عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن صدر منتخب ہوئیں۔ میمو گیٹ نامی مقدمے میں حسین حقانی کی وکالت عاصمہ جہانگیر نے ہی کی تھی جبکہ بڑے بڑے سورما ڈر کر پیچھے ہٹ گئے تھے۔

چند برس پہلے تک عاصمہ جہانگیر یہ کہتی رہی ہیں کہ بھتہ خوری اور غنڈہ گردی میں ایم کیو ایم ملوث ہے، مگر جب الطاف حسین کی اس نفرت انگیز تقریر کا معاملہ سامنے آیا جس پر ان پر تقریر کرنے پر پابندی لگی تو ملک بھر کے محب وطن وکلا نے ان کا کیس لڑنے سے انکار کر دیا۔ عاصمہ جہانگیر نے یہ کہتے ہوئے کیس لے لیا کہ بات کرنے کا حق تو سب کو ہے۔ اس پر وکلا کی تنظیم استحکام پاکستان وکلا محاذ نے عاصمہ جہانگیر کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور عاصمہ جہانگیر اور خالد رانجھا کا لائسنس منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

خواہ جمہوریت کا مقدمہ ہو یا انسانی حقوق کا، خواہ سامنے ملک کا بدترین ڈکٹیٹر کھڑا ہو یا کوئی دوسری جان لیوا طاقت، عاصمہ نے اپنے بہترین دوست اور بدترین فکری مخالف کا مقدمہ بھی اپنی جان سے بے خوف ہو کر انسانی حقوق کی خاطر دلیری سے لڑا۔ پاکستان کی تاریخ میں انسانی حقوق کا اتنا بڑا علمبردار نہ کوئی دوسرا گزرا ہے اور نہ منظر نامے پر ایسا کوئی دوسرا دکھائی دے رہا ہے۔

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےاے خدا وند! تو ’عاصمہ جہانگیر‘ کو مصلوب کر دےکون کتنا مسلمان ہے، یہ پوچھنے کا حق کسی کو نہیں: عاصمہ جہانگیر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar