عاصمہ جہانگیر نے آخری تقریر پشتون لانگ مارچ میں کی – وڈیو


تین دن پہلے جب میں اپنی فیملی کے ساتھ پشتون لانگ مارچ اسلام آباد گیا تو عاصمہ جہانگیر کو دیکھ کر یقین محکم ہوگیا کہ یہ دھرنا سازشی دھرنا ہو ہی نہیں سکتا۔ میرے سمیت اکثر پاکستانیوں کے لئے یہ کافی ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی کسی دھرنے، جلسے، جلوس یا میٹنگ میں موجودگی اس بات کی سند ہے کہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے، ظالم نے پھر ظلم ڈھایا ہے اور قاتل نے پھر قتل کیا ہے۔ پشتون لانگ مارچ میں عاصمہ جہانگیر زمین پہ افراسیاب خٹک کے بائیں جانب بیٹھی تھی اور ہر تقریر کے درمیاں جب وقفے وقفے سے گانا چلتا تھا تو لفظ “انقلاب” کے ساتھ دونوں ہاتھ اٹھا کر ساتھ میں ورد کرتی تھی۔ حالانکہ بیشتر مقررین پشتو میں تقاریر کررہے تھے، لیکن مرحومہ کے حوصلے کو سلام کہ دو گھنٹوں سے زیادہ وہاں موجود تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ لڑایی جمہوریت کی بقا کی لڑایی ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ لڑایی ظالم کے خلاف مظلوم کیساتھ کھڑے ہونے کی ہے، تو زبان کو حایل ہونے کی اجازت کیوں دوں۔

میں ان خوش نصیبوں میں سے ایک تھا، کہ اُن کی زندگی کی آخری تقریر سنی۔ ان کی پشتون لانگ مارچ اسلام آباد کی تقریر کے کچھ سرخیاں۔ پاکستان میں بلوچ اور پشتونوں کا دوسرا نام دہشت گرد ہے حالانکہ پاکستان کے لئے زیادہ قربانیاں بلوچ اور پشتونوں نے دی ہیں۔ پشتون باوجود اس کے کہ ایک امن پسند قوم ہے، لیکن پھر بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑہ رہے ہیں۔ وہ کہہ رہی تھی کہ سوات میں جو بچیاں بے گھر ہوئی ہیں وہ کہاں ہیں، وہ مجھے معلوم ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ حکومت وقت ان کا پوچھ بھی نہیں سکتی۔ مزید فرمایا کہ میرعلی میں جو پشتونوں کے گھر گرایے گیے ہیں، انہیں فی الفور دوبارہ بنایا جایے۔ وہ ایک بہن کی حیثیت سے آئی تھی کہ پشتونوں کے ساتھ ان کے دکھ میں شریک ہو، انہوں نے اپنی تقریر اس پہ ختم کی کہ “پاکستان پشتونوں کے بغیر اور باچا خان کے فلسفے کے بعیر ایک تنگ نظر پاکستان ہے”۔

آج سوشل میڈیا کی وساطت سے معلوم ہوا، کہ عاصمہ جہانگیر رحلت فرما گیی، ایک لمحے کے لئے تو سوچا کہ پھر کسی انصافی نے شوشا چھوڑ دیا ہوگا، لیکن یہ شوشا نہیں تھا، ایک عہد کا حقیقی معنوں میں اختتام ہو گیا تھا۔ دل بیٹھ گیا اور میں بھی۔ سوچ رہا تھا اب کون لڑے گا مظلوم، لاچار، اور بے بس انسانوں کی کیسز۔ اب کون سامراج اور ارباب اقتدار ظالموں کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گا۔ وہ آئرن لیڈی جو آنکھ میں آنکھ ڈال کر دلیل اور قانون کے ساتھ بات کرتی تھی کون ہوگا اب متبادل؟ ہر سفید قمیص اور کالی کوٹ والی اب کوئی عاصمہ جہانگیر ہو گی؟ یحیی خان سے لے کر ضیاءالحق اور مشرف تک ہر آمر کو کون للکارے گا؟ اب تو لفظ ڈفر بھی یتیم ہو گیا؟ وہ توانایی جو مرحومہ نے پشتون لانگ مارچ کو بخشی تھی، اب کون بخشے گا؟

سوشل میڈیا کے پچھتر فیصد سے زیادہ دانشور اللہ کے حضور سر بسجدہ ہو کر شکر ادا کر رہے ہیں، کہ مرحومہ کی وفات ہو گئی ہے۔۔۔ اور یہ ہے ہمارے تنزل کی نشانیاں۔

اس سیریز کے دیگر حصےزندہ رہی اور ڈٹ کے زندہ رہیعاصمہ جہانگیر: سچ کی آواز ہم سے روٹھ گئی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).