عاصمہ جہانگیر: سچ کی آواز ہم سے روٹھ گئی


آج دل بہت بوجھل ہے بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں لیکن سکت نہیں کیونکہ اج انسانی حقوق کی بحالی اور جمہوریت کی منزل تک پہنچنے کی واحد امید کی کرن بھی ختم ہو گئی۔ انتہا پسندی ،نفرت ، تعصب، جہالت ،ضیعیف الاعتقادی میں لتھڑے ،فکری ارتقاء میں انتہائی پیچھے اور پسماندہ مردانہ سماج میں ایک عورت جو اس وقت کھڑی ہوتی تھی جب بڑے بڑے مردوں کی شلواریں گیلی ہوجاتی تھیں، ان پہ بھی کھل کے تنقید کرتی تھی جن پہ تنقید کرنا درکنار سوچنا بھی اکثریت کے بس سے باہر تھا، ان مظلوموں اور ستائے ہوئے کمزور لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی جو اسے ایک پیسے کا مفاد نہ دے سکتے تھے، ان کے لئے لڑتی تھی جن سے بات کرنا تک ہمارے ہاں گوارا نہ کیا جاتا تھا، اس پاکستانی عوام کے حق حکمرانی یعنی جمہوریت کے لئے لڑتی تھی جن میں اکثریت بوجہ جہالت و پروپیگنڈہ خود ہی اپنے حق حکمرانی کے خلاف تھے بلکہ اس حق کو چھین کر انہیں بے عزت کرنے والوں کے جوتے چاٹنے تھے، اس معاشرے میں سچ بولتی تھی جہاں اب سوچ بولنا بیوقوفی اور پاگل پن سمجھا جاتا تھا، اس آئین و قانون کی حکمرانی کی وکیل تھی جسے اس ملک کے مالک جب دل چاہتے ردی میں پھینک دیتے تھے، مزاحمت کی وہ عظیم آواز اور دلیری کی وہ کوہ گراں اج اس پسماندہ اور بے حال معاشرے کو اپنے حال پر چھوڑتے ہوئے وقت سے بہت پہلے چھوڑ کر چلیں گئیں۔۔۔ سوچتا ہوں اب کون ہے پاکستان میں جو اپنے مذہب کے علاوہ بھی کسی انسان کا سوچے گا، جو اپنے فرقے کے علاوہ بھی کسی کا خیال کرے گا، جو اپنے مسلک کے علاوہ بھی کسی کو حق زندگی دے گا، جو اپنی سیاسی جماعت کے علاوہ بھی کسی کی حق پہ ہونے پہ سپورٹ کرے گا، جو معاشرے پہ تسلط قائم کیے ہوئی ان طاقتوں کو شٹ اپ کال دے گا جن کی وجہ سے یہ معاشرہ اج 21 ویں صدی میں بھی 10 ویں صدی کا منظر پیش کر رہا ہے، کون ان غریبوں اور بے بسوں کیلئے مفت کیس لڑے گا جن سے فائدہ یا عزت تو درکنار نفرت اور بے عزتی ملے؟؟

بلاشبہ اج یہ ملک حق اور سچ کی ایک توانا آواز سے محروم ہو گیا ہے۔ آج یہ معاشرہ اپنی جہالت، کم علمی اور پروپیگنڈے کی وجہ سے محترمہ عاصمہ جہانگیر کو سمجھنے سے قاصر ہے لیکن جب اس معاشرے میں حقیقی شعور بیدار ہو گا، انسانیت سے نفرت کے بجائے محبت کرنا سیکھ لے گا، انسانیت کی عظمت ان کے دماغوں میں راسخ ہو جائے گی، انسانی حقوق کی اہمیت ان پہ آشکار ہو جائے گی، عوام اپنے حق حکمرانی یعنی جمہوریت کے حقیقی معنی سمجھ لیں گے اور ان کے دماغ علم و آگہی کی روشنی سے چمک اٹھیں گے تب وہ اس بات پہ فخر کریں گے کہ ہمارے ہاں کبھی ایک انسانیت دوست شخصیت عاصمہ جہانگیر بھی ہوا کرتی تھیں اور لوگ اپنا تعلق ملک کے اندر اور خاص کر بیرون ملک عاصمہ جہانگیر سے سینہ چوڑا کر کےجوڑیں گے۔۔۔۔۔ اور ہم رہیں نہ رہیں ایک وقت ضرور ایسا آئے گا جب ہماری آنے والی نسلیں اپنے نصابوں میں عاصمہ جہانگیر کو ایک ایسی عظیم پاکستانی شخصیت کے طور پہ پڑھیں گے کہ جس نے اپنی ساری زندگی داو پہ لگا کے ایک پسماندہ معاشرے میں جمہوریت، علم و آگہی، عقل و شعور، حق و سچ، اصول پسندی، آئین و قانون کا تقدس، انسانی حقوق کی بحالی، اقلیتوں کے حقوق، جدت پسندی اور ترقی پسندی کی تعلیم عام کی۔۔۔۔۔ آج میڈم عاصمہ جہانگیر ہم میں موجود نہیں لیکن وہ افکار و نظریات جن کی انہوں نے زندگی بھر عملی طور پہ آبیاری کی کبھی ختم نہ ہونگے اور اس معاشرے میں جب بھی سماجی، سیاسی اور فکری انقلاب آئے گا عاصمہ جہانگیر ہی کا نام ہر زبان پہ نظر آئے گا۔۔۔۔

سلام اے حق و سچ کی پیامبر ۔ سلام عاصمہ جہانگیر۔

اس سیریز کے دیگر حصےعاصمہ جہانگیر نے آخری تقریر پشتون لانگ مارچ میں کی – وڈیوعاصمہ جہانگیر: ’ہم ان کی زندگی کو سیلیبریٹ کریں گے‘

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).