عاصمہ جہانگیر: اس خواب کو موت نہیں آ سکتی


عاصمہ جہانگیر کے دل میں سب انسانوں کے لئے بہت درد تھا۔ یہ دل مظلوم عورتوں کے مصائب پر تڑپ اٹھتا تھا۔ تیرہ برس کی اندھی صفیہ بی بی کے مقدمے میں حدود قوانین کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کرنے والا مقدمہ عاصمہ جہانگیر نے لڑا تھا۔ لاہور کے ایک مقتدر مذہبی گھرانے کی بچی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی تھی، عاصمہ جہانگیر نے یہ مقدمہ بھی لڑا۔ بالآخر عدالت نے تسلیم کیا کہ بالغ لڑکی اپنی مرضی سے شادی کا حق رکھتی ہے۔ اسی کی دہائی میں توہین مذہب کے قوانین متعارف کرائے گئے تو عاصمہ نے سلامت مسیح کا مقدمہ لڑا۔ مذہب کے خود ساختہ ٹھیکے داروں نے عاصمہ جہانگیر کو اس گستاخی پر کبھی معاف نہیں کیا۔ بھٹہ مزدوروں سے بیگار لینے کا مقدمہ ہو یا کم عمر قالین باف اقبال مسیح کا مقدمہ قتل، سندھ میں وڈیروں کی نجی جیلیں ہوں یا بلوچستان کا مقدمہ، عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کے لئے شمشیر براں تھیں۔ جب وقت کا آمر اکبر بگٹی کے خون کا پیاسا ہو رہا تھا تو عاصمہ جہانگیر اکبر بگٹی سے ملنے بلوچستان جا پہنچیں۔ ان کی گاڑی پر فائرنگ بھی کی گئی تھی۔ کراچی میں سیاسی ناخداؤں کے تشدد کا شکار ہونے والے شہری ہوں یا اہل خانہ کی جھوٹی غیرت کی بھینٹ چڑھنے والی بچیاں، پاکستان کے ہر مظلوم اور کمزور کو عاصمہ جہانگیر کے دل میں پناہ ملتی تھی۔ وہ صحافیوں کے حق اظہار کے لئے بھی شمشیر برہنہ تھیں اور عدلیہ کے احترام کی محافظ بھی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر کے دل میں جمہوریت کا شعلہ مسلسل فروزاں رہتا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کے دل کی آنچ سے آمریت سلگ اٹھتی تھی۔ عاصمہ جہانگیر کے ایک ہاتھ میں امن کی مشعل تھی اور دوسرے ہاتھ میں رواداری کا چراغ تھا۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے آواز اٹھانا ہو یا سری لنکا میں تامل اقلیت کے حقوق کی بات کرنا ہو، عاصمہ جہانگیر امریکی سپر پاور سے خائف تھیں اور نہ انہیں کسی نام نہاد مقدس ریاست کے ظلم و ستم پر آواز اٹھانے میں کوئی جھجک تھی۔ عاصمہ جہانگیر دہشت گردی کی راہ میں ایک فصیل کی طرح حائل تھیں تو سوات میں ریاستی ظلم و تشدد کے خلاف احتجاج میں بھی پیش پیش تھیں۔ دسمبر 2014ء میں اکیسویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرنا ہو یا اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کی نظر بندی پر آواز بلند کرنا، عاصمہ جہانگیر کے دل میں سمندر کی سمائی تھی۔ گیارہ فروری 2018ء کو ایک انہونی ہوئی۔ جس دل میں دنیا بھر کے مظلوموں کے لئے درد کا سمندر موجزن تھا، وہ دل اپنے ہی لہو کی ایک بوند کی شوریدہ سری برداشت نہ کر سکا۔ عاصمہ جہانگیر کا دل رک گیا۔ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کٹ گیا۔ پاکستان میں شعور، سچائی اور بہادری کی آواز خاموش ہو گئی۔
ہمارے ملک میں بہادری کی ایک طویل روایت موجود رہی ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا منفرد کارنامہ یہ تھا کہ وہ جرات اظہار میں سیاسی شعور، سماجی بصیرت اور قانونی اصابت کو خیرباد نہیں کہتی تھیں۔ ہمارے ملک میں راست گوئی، بہادری اور خرد پسندی کے لئے کبھی زیادہ جگہ نہیں رہی۔ ہمارے ملک کے لوگوں کا حق حکمرانی تو بہت پہلے چھن گیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے تین ماہ بعد پیدا ہوئیں۔ قسم ہے پیدا کرنے والے کی، عاصمہ نے شب گزیدہ آزادی میں آنکھ کھولی اور چھیاسٹھ برس تک آمریت کے جوار بھاٹے سے لڑتی ہوئی دنیا سے رخصت ہوئیں۔ سمجھنا چاہئے کہ آمریت ایوب، یحییٰ، ضیا یا مشرف کا نام نہیں ہے، اس ملک میں آمریت استبداد کا ادارہ جاتی تسلسل ہے۔ آمریت کے خلاف جمہوریت کا مقدمہ پاکستان کا بنیادی سوال ہے۔ جمہوریت کا خواب اس ملک کے لوگوں کی آزادی کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ آمریت نے اس ملک میں تاریخ کا ایک بیانیہ مرتب کیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر اس بیانیے کی مخالف تھیں۔ بیس برس کی عمر میں عاصمہ جیلانی بنام وفاق پاکستان نامی مقدمے میں مارشل لا کے خلاف شہری آزادیوں کا مقدمہ لڑا۔ قانون شہادت میں ترمیم کر کے عورتوں کی گواہی آدھی کی گئی تو عاصمہ جہانگیر نے بارہ فروری 1982ء کو لاہور میں جلوس نکالا۔ 1983ء میں بحالی جمہوریت کی تحریک میں قید ہوئیں۔ مشرف آمریت کے سامری بچھڑے کے سامنے بہت سے روشن خیال سجدہ ریز ہو گئے تھے لیکن عاصمہ نے اصول رہن نہیں رکھا۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ آمریت کی سپاہ نے پاکستان کو مسلسل اپنی کالونی بنائے رکھنے کے لئے معاشرت کا ایک نمونہ تشکیل دیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر اس رجعت پسند اور پسماندہ معاشرتی بیانیے کی دوٹوک مخالف تھیں۔ پاکستان میں ننگی آمریت اور مذہبی اجارہ داری کا گٹھ جوڑ رہا ہے۔ عاصمہ نے عقیدے کے نام پر پاکستان کے لوگوں کو اپنا غلام سمجھنے والوں کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا۔ شہریوں پر ریاست کے جبر، علم کے مقابلے میں جہالت کی فصل اور رواداری کے مقابلے میں نفرت کی آبیاری کرنے والوں کو عاصمہ جہانگیر نے کبھی معاف نہیں کیا۔
عاصمہ جہانگیر پر وہ سب الزام لگائے گئے جو اس ملک کے عظیم ترین لوگوں کا اعزاز رہے ہیں۔ باچا خان سے غوث بخش بزنجو تک کون سا محب وطن ہے جس پر غداری کا الزام نہیں لگایا گیا۔ عاصمہ جہانگیر کو بھی یہ اعزاز نصیب ہوا۔ غداری کے اس الزام کی حقیقت صرف یہ تھی کہ قوم کے مفاد سے غداری کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے تو رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے یہ الزام ارزاں کیا جاتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر تو کبھی کسی سرکاری منصب پر فائز نہیں رہیں، ان کے پاس کون سے ریاستی راز تھے جنہیں افشا کرنے پر وہ غداری کی مرتکب ہوتیں۔ ایک چلتا ہوا الزام مذہب دشمنی کا بھی اس ملک میں عام ہے۔ کوئی شریف آدمی کسی بھی مذہب کا مخالف نہیں ہوتا۔ مذہب کے نام پر علم، محبت اور رواداری پر پابندیاں لگا کر ذاتی مفادات کی فصل کاٹنے والوں کی مخالفت کی جائے تو اسے مذہب دشمنی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ الزام سقراط سے لے کر والٹیئر، گیلیلیو، ابن رشد، ابن خلدون تک ہر بھلے مانس پر لگایا گیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر ہرگز مذہب مخالف نہیں تھیں۔ وہ مذہب پر کچھ عناصر کی خود ساختہ اجارہ داری کی مخالف تھیں۔ حیران کن بات ہے کہ جس خاتون کو پاکستان میں مذہب دشمن قرار دیا جاتا تھا، اسے اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے تحفظ کے لئے چھ برس تک عالمی مندوب برائے مذہبی آزادی کا منصب سونپے رکھا۔

عاصمہ جہانگیر نے ایک بامعنی زندگی گزاری۔ وہ زندگی بھر انسانوں کے دکھ دور کرنے کے لئے لڑتی رہیں۔ انہوں نے 1987ء میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی بنیاد رکھی تھی جب ان کی عمر چھتیس برس تھی۔ آج یہ ادارہ پاکستان کا معتبر ترین غیر سرکاری ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے طویل زندگی نہیں پائی لیکن ان کا ہر سانس کسی بلند اخلاقی اصول کا اثبات تھا۔ انہوں نے جو قدم اٹھایا وہ انسانوں کی محبت کو وسعت دینے کے لئے تھا۔ انہوں نے جب زبان کھولی، ظالموں کو للکارا۔ عاصمہ جہانگیر کا نام پاکستان کی تاریخ میں فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ لیا جائے گا۔ عاصمہ جہانگیر کی اچانک موت پاکستان کے مظلوموں، ترقی پسندوں اور انسان دوست حلقوں کے لئے جانکاہ سانحہ ہے لیکن جاننا چاہیے کہ عاصمہ جہانگیر نے ایسی زندگی گزاری جو ہر انسان دوست، روشن خیال اور خرد مند انسان کا خواب ہوتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے محبت اور انصاف کے خواب میں زندگی بسر کی۔ اس خواب کو موت نہیں آسکتی۔

https://jang.com.pk/print/447941-asma-jahangir-a-dream-that-never-dies

اس سیریز کے دیگر حصے’عاصمہ جہانگیر کی روشن خیالی کی میراث کو ہم نے آخری سانس تک نبھانا ہے‘وہ جس نے ہمیں مردانگی کے حقیقی مفہوم سے روشناس کرایا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).