سو شیر جوانوں پہ بھاری ایک نہتی لڑکی


جس دن نوکری سے فرصت مل جائے یا بیچ میں ہی کچھ وقت فارغ ہو تو کوشش ہوتی ہے کہ ریڈنگز جا کر بیٹھا جائے ۔ ایک دو گھنٹے گزار کر ہی پانچ چھ کالموں کا میٹریل مل جاتا ہے ۔ کتابیں دیکھتے دیکھتے کوئی نیا خیال سٹرائیک کر جاتا ہے ۔ کبھی وہاں موجود کسی دوست کی بات پلے پڑ جائے تو اس پر عمارت کھڑی کرنے کا خیال آ جاتا ہے ۔ پچھلے دنوں وہاں ایک کتاب نظر آئی جو دنیا بھر کی اہم خواتین کے بارے میں تھی۔ پوری دنیا میں ایسی خواتین جنہوں نے اپنی فیلڈ میں کوئی نہ کوئی نمایاں کام کیا ہو وہ سب وہاں یاد کی گئی تھیں۔

میں اس کتاب کو اس لیے نکال کر لایا تھا کہ مجھے اس میں بے نظیر بھٹو کا نام دیکھنا تھا۔ پاکستان سے کوئی اور ریمارکیبل نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں تھا، وہ ایک ہی تھیں ویسے بھی جو اس سٹیچر کی اکیلی عورت تھیں۔ صفحے پلٹتے پلٹتے جہاں کوئی اور اہم نام نظر آتا یا کوئی تصویر نظروں کو باندھ لیتی تو باقی تفصیل پڑھنا شروع کر دیتا۔ ایک صفحے پر شیریں عبادی کا تذکرہ ملا تو اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ انہیں 2003ء میں نوبل انعام ملا تھا اور وہ اسے حاصل کرنے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔

ایرانی انقلاب سے پہلے لیجیسلیٹو کورٹ کی سربراہی کرنے والی پہلی خاتون جج بھی وہی تھیں۔ وہ شاہ ایران پر ٹھیک ٹھاک تنقید کرتی تھیں لیکن جب خمینی کا انقلاب آیا اور ایران میں عورتوں کو آہستہ آہستہ بالکل نکرے لگا دیا گیا تو اس کے خلاف مزاحمت کی پہلی آواز بھی شیریں عبادی تھیں۔ قدامت پرستوں کی دنیا میں خواتین وکلا اور ججوں کو پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں تھی تو اس کے خلاف شیریں لڑتی رہیں۔ ایران میں لڑکیوں کی شادی نو برس میں بھی کی جا سکتی تھی، شیریں نے اس کے خلاف قانون پاس کروایا، انہوں نے کئی مظلوم عورتوں اور بچوں کے مقدمے لڑے ۔

ساری زندگی انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی شیریں عبادی کو جب نوبل انعام ملا تو انہوں نے وہاں کی عاصمہ جہانگیر کا درجہ حاصل کر لیا۔ خوش ہونا تو دور کی بات لوگوں نے تنقید کی اور کہا کہ جب انعام ملا تو آنسہ شیریں عبادی نے سر پہ دوپٹہ کیوں نہیں اوڑھا تھا۔ لیکن واپس آنے پر ایک خوشی ان کی منتظر تھی، تہران ائیر پورٹ پر دس ہزار لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے اور ان میں غالب اکثریت عورتوں کی تھی۔ شیریں عبادی اب بھی زندہ ہیں۔ وہ جس مائنڈ سیٹ کے خلاف لڑ رہی ہیں وہ بھی پوری آب و تاب سے زندہ ہے لیکن عاصمہ جہانگیر آج وفات پا گئیں۔

اس کتاب میں اگلا نام عاصمہ جہانگیر کا تھا۔

آئلہ نے پوچھا بابا عاصمہ جہانگیر کیسے فوت ہوئیں؟ کہہ دیا کہ بیٹا خوش قسمت تھیں جو اپنی موت رخصت ہوئیں۔ وہ پاکستان کی شیریں عبادی تھیں، جن کے لیے آواز اٹھائی انہی سے اکثر دشنام کا سامنا رہا۔ عاصمہ جہانگیر کیسی نڈر تھیں یہ اپنے کمبلوں میں بیٹھ کے اخبار پڑھتے ہوئے ہم کبھی نہیں سوچ سکتے ۔ جنرل یحییٰ خان نے بنگلہ دیشی عوام کے خلاف آپریشن شروع کیا تو گنتی کے چند لوگ تھے جنہوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ ان میں سے ایک عاصمہ جہانگیر کے والد تھے ۔

جب فوجی حکومت نے ملک غلام جیلانی کو گرفتار کیا تو عاصمہ نے اس گرفتاری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ مقدمہ لڑنے والا کوئی نہیں تھا، سب خوف زدہ تھے ، خود مقدمہ لڑا۔ ایک اکیلی لڑکی اور سامنے مارشل لا حکام، پوری حکومتی مشینری لیکن وہ ڈٹی رہیں۔ مقدمہ تھا ہی ایسا کہ اس کا فیصلہ کون کرتا۔ لٹکایا جاتا رہا، اسی دوران عاصمہ جیلانی (جہانگیر وہ شادی کے بعد ہوئیں) نے یحییٰ مارشل لا کی آئینی حیثیت کو بھی چیلنج کر دیا۔ دونوں کیسز کا فیصلہ ظاہری بات ہے دیر سے ہوا، لیکن بھٹو دور کے شروع میں مارشل لائی بساط اسی طرح لپیٹی گئی۔ ملک غلام جیلانی باعزت رہا ہوئے اور فوج کا حکومت پر قبضہ بھی غیرقانونی، غیر آئینی ٹھہرا۔ غور کیجیے تو پاکستانی سیاست پر قبضے کا ایک تاریک باب عاصمہ جہانگیر کی پٹیشن پر فیصل ہوا۔

ضیا دور میں ایک ایسی لڑکی سے زیادتی کی گئی جو نابینا تھی۔ کوئی اور دور ہوتا تب بھی یہی فیصلہ ہونا تھا جو اس وقت ہوا۔ زیادتی کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی صفیہ بی بی اپنے پیٹ میں ثبوت لیے قید اور جرمانے کی سزا نبھانے جیل چلی گئی، اس کے پاس زیادتی کے گواہ نہیں تھے ۔ عاصمہ جہانگیر نے وہ کیس لیا، اسے بھی انصاف دلایا، تشدد کا سامنا کیا، لیکن وہ عاصمہ کیا جو ڈر جائے ، ڈٹی رہیں۔

مشرف دور میں عاصمہ جہانگیر پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھیں۔ اب ان کے پاس مسنگ پرسنز کا کیس تھا۔ کوئی ماں کا لال اس وقت ایسے کسی رسک کے لیے تیار نہیں تھا لیکن آمنہ مسعود جنجوعہ کیس بھی عاصمہ جہانگیر نے لیا۔ مطلب ایک کے بعد ایک ہر وہ خطرہ انہوں نے گلے سے لگایا جس میں پڑنے سے اپنے وقت کے سبھی شیر جوان خوفزدہ رہتے تھے ۔ ابھی حالیہ تاریخ میں اس کی مثال میمو گیٹ کیس میں حسین حقانی کی وکالت اور الطاف حسین کیس میں ان کی مخالف ہونے کے باوجود ان کی وکالت تھی۔ کیس لینے کی وجہ بنیادی انسانی حقوق تھے ۔ اقلیتیں، بھٹہ مزدور، عورتیں، مظلوم لوگ، تشدد سہتا ہوا عام آدمی کوئی بھی انسان کسی بھی وقت اس عورت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔

اس ساری بہادری کے ساتھ، حوصلے کے ساتھ، ہمت کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ وہ ایک بڑے دل کی خاتون بھی تھیں۔ یار یہ بات کم ہے کہ ایک بندہ اتنا مشہور ہو اور کسی اعلیٰ عہدے کی خواہش نہ کرے ؟ ادھر تو آن ڈیوٹی سرکاری ملازم سیاست میں گھستے نظر آتے ہیں، کہاں وہ عورت جو ایک مقام رکھتے ہوئے بھی کبھی کسی خصوصی رعایت کی طلب گار نہیں ہوئی، کبھی کسی غلط طریقے سے کوئی فیور نہیں لی، جو کیا اپنے سر پہ کیا، ڈٹ کے کیا اور کرنے کے بعد سزائیں بھگت کر پھر کیا!

انہیں کینسر تھا، ایک طویل عرصے وہ اس موذی مرض سے لڑتی رہیں لیکن آس پاس کے لوگوں تک کو نہیں بتایا۔ وجہ وہی تھی کہ اگر بتا دیا تو کوئی کام پورا نہیں ہو سکے گا۔ ہر دشمن اسی آس میں بیٹھ جائے گا کہ یہ تو بس جانے والی ہیں، جیسے تیسے ہو سکے معاملے کو گھسیٹا جائے ۔ زندگی میں کبھی نہ ہارنے والا انسان بھی بیماری کے ہاتھوں ہار جاتا ہے ۔

عاصمہ جہانگیر آج گزر گئیں۔ چند افراد ہیں جو رئیلائز کرتے ہیں، دل سے مانتے ہیں کہ ان کا جانا کتنا بڑا نقصان ہے ۔ اکثریت کے لیے یہ ایسا ہی ہے جیسے پچھلی گلی میں کوئی خاتون فوت ہو جائیں جنہیں ایک یا دو بار دیکھا ہو۔ اصل مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو بابا ایدھی کے مرنے پر بھی وہی راگ الاپتے تھے جو آج الاپ رہے ہیں۔ نفرت کے سروں پر اٹھنے والا گانا کبھی انترے تک نہیں پہنچتا بالک، گائے جاؤ!

عربی شاعر حارث بن حلزہ نے کہا تھا؛

سو زمانہ جب ہم پہ ضرب لگاتا ہے
تو گویا بلند چوٹیوں والے
ایک ایسے سیاہ فام پہاڑ کو ضرب لگاتا ہے
جس پر بادل کی ردا بھی چاک ہو جاتی ہے
یہ پہاڑ حوادث کو تیوری چڑھا کر
ترش روئی سے دیکھتا ہے
اور زمانے کی سخت سے سخت مصیبت بھی
اسے ضعف نہیں پہنچا سکتی

باقی کہانی؛ تو اس کتاب میں بے نظیر بھٹو کا سیکشن بھی مل گیا۔ جہاں دنیا کی مختلف بلند حوصلہ خواتین کا مکمل تعارف ایک یا آدھے صفحے پر تھا وہیں بے نظیر بھٹو کے لیے دو صفحے مختص کیے گئے تھے ۔ دونوں صفحات کی تصویر لی اور سوچا کہ چند مزید نوٹس لوں گا اور پھر اس موضوع پہ لکھوں گا۔ اندازہ نہیں تھا کہ ایک دو دن بعد ہی عاصمہ جہانگیر موضوع بن جائیں گی۔ خدا غریق رحمت کرے ۔

حسنین جمال
اس سیریز کے دیگر حصےمیں نے عاصمہ آپا کو کیسا پایا؟ (2)آؤ عاصمہ جہانگیر بنیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain