جرمنی میں اقتدار پر مہاجر دوست اینجلا مارکل کی گرفت کمزور


میرے لئے جرمنی کی سیاست پر لکھنا پاکستان کے بعد سب سے سہل ہے کیونکہ میں جرمنی میں Political Strategist کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ جرمن پارلیمنٹ کی ساؤتھ ایشیاء کمیٹی سے خطاب کا موقع ملا اور جرمن حکومت کی دعوت پر بار بار جرمن جانے کا بھی موقع رہا۔ یورپ گذشتہ ستمبر سے جرمنی پر نظریں گاڑھے بیٹھا تھا کیونکہ حکومت سازی کے تعطل نے ستمبر 2017؁ء کے عام انتخابات کے بعد سے اب تک جرمنی کی ان پالیسیوں کے حوالے سے ایک گومگو کی کیفیت پیدا کر رکھی تھی جو جرمن چانسلر اینجلا مارکل سے مخصوص تھی اور ان کے اقتدار سے رخصت ہو جانے یا کمزور پڑنے کی صورت میں ان میں تبدیلی کے اثرات جرمنی کو بالخصوص اور تمام یورپ کو بالعموم متاثر کریں گے۔

بہرحال جرمنی میں حکومت سازی کے لئے تین جماعتی بڑا اتحاد وجود میں آگیا۔ حالانکہ اب بھی اس کے وجود کو لاحق خطرات رفع نہیں ہوئے ہیں۔ دی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو)، کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) اور جرمن سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) پر مشتمل اس اتحاد میں شامل جماعتیں ہیلتھ کیئر، لیبر اور کاروباری معاملات کے حوالے سے مختلف خیالات رکھتے ہیں اور انہی مسائل پر اتحادی حکومت قائم کرنے کے لئے ان تینوں کے مابین مذاکرات جاری تھے جو بار بار خطرات کی زد میں آتے رہے۔ لیکن بالاآخر روبہ عمل آ گئے لیکن ایس پی ڈی کے اس اتحاد میں شمولیت پر ایس پی ڈی میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ اس معاہدے کی توثیق ایس پی ٹی کے کارکنوں کے ایک ریفرنڈم میں دی جائے گی۔ اس ریفرنڈم میں ایس پی ڈی کے چار لاکھ اراکین معاہدے کی توثیق یا تنسیخ کے حوالے سے اپنا فیصلہ صادر کریں گے۔

ایس پی ڈی میں اس وقت اتحاد میں شامل ہونے اور رہنے کے حوالے سے شدید اختلافات موجود ہیں۔ خاص طور پر ایس پی ڈی کا نوجوان طبقہ اس اتحاد کے حوالے سے مخالفت میں بہت زبردست طور پر متحرک ہیں۔ ایس پی ڈی کے یوتھ ونگ (Juso) کے تقریباً تمام سرکردہ اراکین کھل کر اپنے سربراہ مارٹن شولز کی مخالفت میں کمربستہ ہو چکے ہیں۔ مارٹن شولز اس بڑے اتحاد میں جرمنی کے وزیر خارجہ مقرر ہوں گے۔ اور ان کے مخالفین جو ان کی جماعت سے ہی متعلق ہیں ان کی بطور جماعت کے سربراہ کے کارکردگی پر سخت نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایس پی ڈی اپنے سب سے برے انتخابی نتیجے تک آ پہنچی ہے اور انتخابات ستمبر 2017؁ء میں 20.5% ووٹ حاصل کر سکی ہے۔ اسی سبب سے مارٹن شولز وزیر خارجہ بننے کے بعد پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہونے سے تیار ہو چکی ہیں۔ لیکن پارٹی میں ان کے مخالفین جن کو یوتھ ونگ کی پوری ہمایت حاصل ہے۔ No Grand Coallation کے نعرے کے ساتھ ریفرنڈم میں تین جماعتی بڑے اتحاد کو مسترد کروانے کے لئے بہت سرگرم عمل ہے۔

اس لئے وہ یہ حربہ بھی اختیار کر رہے ہیں کہ عوام کو دعوت دے رہے ہیں کہ چاہے عارضی طور پر ہی صحیح ایس پی ڈی میں شمولیت اختیار کر لیں۔ تا کہ مارٹن شولز کے اتحاد معاہدے کو ناکام بنایا جا سکے۔ ان کی ان سرگرمیوں سے حقیقتاً یہ تصور بیدار ہو چکا ہے کہ ریفرنڈم کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایس پی ڈی کے وہ رہنماء جو معاہدے کے حق میں ہیں وہ ہیلتھ کیئر اور لیبر کے مسئلے پر معاہدے میں موجود شقوں کو اپنی کامیابی کے لئے ایک پرکشش سوغات کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ایس پی ڈی کے انتخابی نعروں میں ہیلتھ کیئر اور لیبر کے معاملات بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔ ایس پی ڈی کے معاہدے کے وقت یہ ڈیمانڈ تھی کہ جرمن عوام کو میسر صحت کی سہولتوں اور نجی طور پر حاصل کردہ صحت کی سہولتوں کے مابین فرق کو کم کیا جائے۔ وہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ کن بات معاہدے میں شامل نہیں کروا سکے۔ بلکہ معاہدوں میں اعلان کیا گیا ہے کہ اس معاملے کو طے کرنے کے واسطے ایک کمیشن بنایا جائے گا۔

بہرحال معاہدے میں شراکت اقتدار کو اس طرح سے تقسیم کیا گیا ہے کہ سی ڈی یو کے پاس اکنامکس، دفاع، زراعت اور تعلیم کی وزارتیں ہوں گی۔ جبکہ ایس پی ڈی، وزارت خارجہ، خزانہ، محنت، انصاف اور ماحولیات کے قلمدان لینگے۔ اس حوالے سے خیال ہے کہ ہیمبرگ کے میئر کو وزارت خزانہ کا قلمدان سپرد کیا جائے گا۔ اتحاد کی تیسری جماعت سی ایف یو کے لیڈر ہارسٹ سی ہوفر وزیر داخلہ اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے سربراہ ہوں گے۔ جبکہ ٹرانسپورٹ ڈیجیٹل افیئرز اور ترقیاتی مدد کے وزراء بھی اسی جماعت سے لیے جائینگے۔ اس وزارتی تقسیم سے واضح ہوتا ہے کہ اقتدار پر چانسلر اینجلا مارکل کی گرفت پہلی سی برقرار نہیں رہے گی اور اگر ان کی اقتدار پر گرفت پہلی سی برقرار نہ رہی تو یقینا جرمنی کی مختلف بین الاقوامی اور یورپی معاملات پر خیالات برقرار نہیں رہیں گے کہ جس طرح اب ہیں۔

ویسے بھی تین جماعتی معاہدے کے پہلے باب میں جرمنی کے یورپ سے تعلقات کو زیر بحث لایا گیا ہے اور ایک کرنسی کے موجودہ نظام کو قابل اصلاح تصور کرتے ہوئے اس سے تبدیلیاں لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح معاسی نظام میں بھی تبدیلیوں کی بابت واضح اعلان ہے۔ Fiscal Union کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے میکرو اکانومی کو استحکام دینے کی بات کی گئی ہے۔ یورپ اس وقت European Stability Machanism (ESM) سے منسلک ہے۔ اس میں تبدیلیاں لاتے ہوئے مستقل ریسکیو فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اعلان سے وفاقیت یورپ میں مضبوط کرنے کی ایک کوشش دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہی تصور ہے جو فرانسیسی صدر بار بار پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے آگے یہ سوال کھڑا ہے کہ اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے برلن اور پیرس کتنا حصہ ادا کریں گے اور کتنا حصہ ادا کر سکتے ہیں۔ پھر اٹلی کا رد عمل بھی جب تک واضح نہیں ہوتا اس پر عمل درآمد کے حوالے سے خدشات قائم رہیں گے۔

اٹلی میں آئندہ مارچ میں انتخابات ہیں اور برسکونی تمام قانونی مسائل کے باوجود اہم ترین عنصر ہے۔ وہ مہاجرین کے حوالے سے بالخصوص جرمنی اور فرانس سے مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ اگر اٹلی نے کسی مشترکہ نظام میں تبدیلی کی مخالفت کی تو جرمنی کے لئے بہت مشکل ہو گا کہ وہ اس پر عمل کر سکیں۔ ویسے بھی جرمنی چیمبرز آف انڈسٹری اینڈ کامرس نے اس حکومتی اتحاد کے مقاصد پر عدم اطمینان کا اظہار کیا کیونکہ اس میں امریکہ کی جانب سے کی گئی یو ایس کارپوریٹ ٹیکس ریفارم جس نے جرمنی کی کمپنیوں کو براہ راست متاثر کیا ہے پر کوئی بات نہین کی گئی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ اتحاد بھنور سے نکل پاتا ہے یا ڈوب جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).