لگتا ہے پھر محبت کرنے کا دن آ پہنچا


گلاب کے پھولوں کی خوشبو چاروں طرف پھیل رہی ہے۔ لگتا ہےپھر محبت کرنے کا دن آ پہنچا۔
پانچ برس ہوتے ہیں جب آج کے ہی دن درویش کو موبائل پر ایک پیغام ملا۔ محبت کے نام پر الو بنانے والے اعلان نہیں کرتے خاموشی سے خفیہ پیغام کاری کرتے ہیں۔ محبت کرنا بھی ایک جوکھم کا کار ہے۔

ارشاد ہوا کہ سہ پہر ڈھلنے کے وقت مینار پاکستان کے مشرقی کونے میں ملاقات کا بندوبست کیا جائے۔ عرض کی کہ وقت کم ہے ممکن نہ ہو سکے گا۔ فرمایا کہ محبت میں پہاڑ سر کیے جا سکتے ہیں تو سہ پہر کو مینار پاکستان کیوں نہیں۔ چاروناچار پروگرام بنانا پڑا۔ اس اثنا میں ایک پرانے واقف کار کا فون آ گیا۔ ملنے کے تمنائی تھے۔ درویش سہ پہر کی ملاقات کی شادمانی میں مگن۔ عرض کی کہ آج ملنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ بھنوٹ ہو گئے۔ فون پر انواع و اقسام کی سنا ڈالی اور اختتامیہ کے طور پر ٹھرکی کا لقب عطا فرمایا۔ درویش کی طبیعت مکدر ہو گئی۔

پس منظر اس سارے قصے کا کچھ یوں ہے کہ کوئی اڑھائی ماہ سے ایک ماہ رخ مثل گلاب درویش سے رابطے میں تھی۔ شب و روز گفتگو رہتی۔ محبت و الفت کے نت نئے معانی و مطالب دریافت کیے جاتے۔ پہروں قصہ خوانی کے بازار گرم کیے جاتے۔ درویش خوش گلو خاتون کا شیدائی تھا تو نازک اندام حسینہ درویش کی نکتہ آفرینی کی خوشہ چیں۔ گاہے ملاقات کے منصوبے بنائے جاتے مگر حسن اتفاق سے یہ نوبت اب تک نہ آنے پائی تھی۔ اب یکایک ارشاد ہوا تھا کہ ملاقات کا بندوبست کیا جائے تو حالت دیدنی تھی۔ ایسے میں اپنی دگرگوں مالی حالت کی فکر بھی لاحق تھی کہ ملاقات کا حق کیونکر ادا ہو پائے گا۔ سنا ہے ایسے معاملات میں روپیہ پانی کی طرح بہانا پڑتا ہے۔ میں اسی سوچ میں غلطاں تھا اور وقت تھا کہ جیسے پر لگا کر اڑتا چلا جا رہا تھا۔ یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ فریق مخالف وقت کا پابند۔ مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ انتظار میں محو خاتون مایوسی کے عالم میں کسی اور پر فریفتہ ہو جائے۔

سفر ہمیشہ سے کمزوری رہا ہے۔ اس میں جسمانی اور مالی دونوں قسم کی کمزوری کا ہاتھ ہے۔ کوشش البتہ ہمیشہ یہی رہی کہ حتی الوسع مالی بوجھ کسی نہ کسی پر ڈال دیا جائے چاہے زبردستی ہی سہی مگر یہ ایسی صورت حال تھی جس میں اپنوں سے بھی تقاضہ زر کا محض خیال پیشانی کو عرق ندامت میں بھگو کر رکھ دیتا۔ کوئی صورت نظر نہ آئی تو چنگ چی کا قصد کیا۔ بند روڈ سے مینار پاکستان کا سفر اپنی مثال آپ ہے۔ اگر یہ سفر چنگ چی میں کیا جائے تو لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ راستے میں میانی صاحب کا قبرستان بھی پڑتا ہے۔ اس روز وہاں بھی سرخ رنگ کے بینر آویزاں دیکھے۔

قصہ مختصر وقت مقررہ سے قریب پانچ منٹ پہلے درویش منزل مقصود پر پہنچ گیا تھا۔ چنگ چی سے اتر کر اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنے اعضا کی سلامتی کی فکر کی۔ کچھ دیر معائنے کے بعد معاً احساس ہوا کہ جو رنگین کرتہ درویش نے زیب تن کیا تھا اس کی ایک سائیڈ غالباً کسی کیل وغیرہ میں اٹک کر ادھڑ گئی تھی۔ پریشانی لاحق ہو گئی۔
موچی کو ڈھونڈ کر فوری طور پر دو تروپے لگوائے۔

مینار پاکستان میں سے ملحقہ باغ میں معمول سے زیادہ لوگ تھے۔ یا مظہر العجائب۔ یوں لگتا تھا پورا لاہور درویش کے تعاقب میں قراردادِ پاکستان کی از سرنو تجدید کی خاطر چلا آتا ہے۔ درویش کی نظر مشرقی کونے کی جانب محو پرواز تھی۔ دفعتاً ذہن میں خیال لپکا اور پل بھر میں ہستی کی مستی کو خاکستر کر گیا۔ میں نے کبھی فریق مخالف کے بنفس نفیس ملاحظہ نہ کر پایا تھا تو اب شناخت کیسے ہو۔ ملاقات کا قصہ آغاز سے پہلے ہی انجام پذیر ہوا۔ آئے بھی نہ تھے کہ نکالے گئے۔

ایک اژدہام تھا جو چاروں طرف پھیلا ہوا تھا اور اس میں مطلوبہ مستور کو تلاشنا گویا بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی ڈھونڈ نکالنا۔ پاس سے گزرتے ایک جوان رعنا سے ہجوم کی بابت دریافت کیا۔ بتایا کہ محبت کا دن ہے۔ لوگ محبت کی تلاش میں امڈے چلے آتے ہیں۔ سوچا محبت کی تلاش میں مینار پاکستان جوق درجوق کس لیے چلے آتے ہیں۔

دفعتاً مینار پاکستان پر نظرجا ٹھہری۔ منٹو پارک کے وسط میں ایستادہ مینار پاکستان پوری شان سے سر اٹھائے تنا کھڑا تھا۔ پل بھر میں ماجرا آشکار ہو گیا۔ محبت کا دن تھا۔ ایسا ہی ہونا تھا۔
اپنی حماقت اور کمزوری کو کوستا ہوا چنگ چی کا سوار نامراد گھر واپس پہنچا اور موبائل سے نمبر مٹا ڈالا۔ پانچ برس گزر گئے یاد نہ گزری۔ ابھی گلی سے نوخیز نوجوانوں کی ٹولی مینار پاکستان کا قصد کرتی گزری ہے۔
گلاب کے پھولوں کی خوشبو چاروں طرف پھیل رہی ہے۔ لگتا ہےپھر محبت کرنے کا دن آ پہنچا۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad