رُل گئے آں پر چس بڑی آئی


عنوان میں لکھا گیا جملہ چند دن پہلے ایک رکشے کے پیچھے نظر آیا تھا۔ اگر پنجابی کے اِس جملے کا اُردو میں ترجمہ کروں تو کچھ یوں ہو گا ’’ہم خوار ہو گئے مگر بہت مزہ آیا‘‘۔ ہمارے ایک دوست جو اُردو اور پنجابی زبان میں یکساں طور پر یکتا ہیں ہمارا ترجمہ سُن کر کہنے لگے ’’لفظ مزہ پنجابی کے ’’چس‘‘ کی معنوی گہرائی کا احاطہ نہیں کرتا۔ ’’چس‘‘ کا مفہوم ’’مزہ‘‘ یا ’’لُطف‘‘ کی عمومی کیفیت سے مختلف، کیف و نشاط کی نئی وُسعتوں اور بلندیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘

ترجمے میں اِس قسم کی مشکل پیش آتی ہے، مگر کہنہ مشق مزاح نگار اُس دُشواری میں پسند کا مطلب تلاش کر لیتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفیؔ نے اپنی کتاب ’’آبِ گُم‘‘ میں پنجابی لفظ ’’ٹھرک‘‘ استعمال کیا۔ پنجابی زبان سے واقف جانتے ہیں کہ ٹھرک عام طور پر جذباتی وابستگی اور لگن کی علامت ہے۔ اگر کہا جائے کہ شہباز شریف کو میٹرو بس اور نواز شریف کو سڑک کا ٹھرک ہے تو غلط نہ ہو گا۔ مگر ٹھرک صنفِ نازک سے دل لگی کا اظہار بھی ہے۔ عمر رسیدہ عاشق بوجوہ صنفِ نازک سے کھل کر اظہارِ اُلفت نہیں کر سکتے۔ وہ اُن کی قربت میں ایک خاص کیفیت سے گزرتے ہیں۔ اُن کی ڈھلتی عمر میں اٹھکیلیاں کرنے کے عارضے کو پنجابی میں ’’ٹھرک‘‘ کہا جاتا ہے۔

مشتاق احمد یوسفیؔ نے اِسی حالتِ اضطراب کو ’’معذور ہوس‘‘ سے موسوم کر کے ترجمے کو زندہ جاوید کر دیا۔اگر سنجیدگی سے عنوان میں لکھے جملے کا جائزہ لیں تو انسانی نفسیات کے خاص پہلو کی نشاندہی ہوتی ہے۔ زندگی میں Pursuit of pleasure یا عیش و عشرت کا تعاقب جاری رہتا ہے۔ خوشی کی تلاش ایک جائز خواہش ہے، مگر کئی دفعہ اِس تلاش میں سماجی حدود و قیود کی پابندیاں حائل ہوتی ہیں۔ انسانی فطرت کو ممانعت پسند نہیں۔ تجسس بنی نوع انسان کا خاصا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کھوج کا جذبہ بیدار ہو جائے تو شجرِ ممنوع کی دلکشی نظر میں کُھب جاتی ہے۔

انسان کی کہانی اِسی کمزوری سے عبارت ہے۔ حضرت آدم جنت کے مکین تھے۔ شیطان کے بہکاوے میں شجرِ ممنوع کی طرف راغب ہوئے۔ نافرمانی کی سزا پائی اور ہمیں جنت سے دُنیا میں لے آئے۔ اُنہیں اِس لغزش پر ’’چس‘‘ آیا یا نہیں مگر ہم رُل گئے۔ شیطان مردُود نے دُنیا میں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ محبت میں ہوس کی ملاوٹ کی اور محبوب سے وصال کا ’’چس‘‘ اہلِ دل کے ذہن پر سوار کر دیا۔ مجھے زمانۂ طالبعلمی کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ہم سب نوعمر تھے۔ ایک دوست کو عشق ہوا۔ بہی خواہوں کا خیال تھا کہ نہ خاتون رشتے کے لئے مناسب تھی اور نہ ہمارے ساتھی کے خاندانی حالات موافق تھے۔ اُسے سمجھانے کی ٹھانی۔ اُن دنوں فلمی شاعری خاصی مقبول تھی۔

ہم سب ساحر لدھیانویؔ کے شعروں پر سر دُھنتے تھے اور ہمارا عاشق دوست شکیل بدایونی کا پرستار تھا۔ اُس کے مطابق دونوں کی شاعری میں وہی فرق تھا جو لدھیانے کے کالج اور علی گڑھ یونیورسٹی میں ہے۔ عشق سے باز رکھنے کے لئے اُسے ٹیپ ریکارڈر پر شکیل بدایونی کا لکھا ہوا نغمہ سنوایا۔ فلم ’’اڑن کھٹولا‘‘ میں گانے کے بول تھے ’’محبت کی راہوں پہ چلنا سنبھل کے۔ یہاں جو بھی آیا گیا ہاتھ مل کے‘‘۔ قصہ مختصر، اِس گانے نے وہ اثر دکھایا جو کسی اور کے بس میں نہ تھا۔ اگر کبھی کسی بھٹکے ہوئے عاشق کو اِس ’’چس‘‘ سے باز رکھنے کی ضرورت ہو تو قارئین شکیل بدایونی کی شاعری سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

اب آیئے سیاست کی طرف۔ ریاست کے نظم میں تمام اداروں کے مخصوص علاقے اور سانجھی دیواریں ہیں۔ اِس بستی میں اہلِ سیاست کا علاقہ اپنے اندر ایک خاص دلکشی رکھتا ہے۔ اُس کے شبستان کی رنگینیاں اور اختیارات کی چکاچوند ہر کسی کا دِل لُبھاتی ہے۔ انتظامیہ کے پاس اختیار ہے کہ وہ صاحبِ ثروت شہریوں پر ٹیکس لگائے اور جمع شدہ رقم عوامی فلاح پر خرچ کرے۔ اِس معاشی طاقت کے ساتھ قانون نافذ کرنے کا اختیار، اِس چراگاہ کے سبزے کو اور بھی ہرا کر دیتا ہے۔

انتظامی معاملات میں وزیر ہوں یا سرکاری افسر، اپنے لئے صوابدیدی اختیارات کے مست ماحول میں ’’چس‘‘ تلاش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس کوشش میں خواری اُن کا مقدر ٹھہرے۔ دُوسرے ادارے للچائی نظروں سے انتظامی کاروبار کی دلکشی دیکھتے ہیں۔ تاک جھانک کا سلسلہ جاری رہتا ہے، مگر جب اہلِ سیاست کا باہمی انتشار حفاظتی دیواریں گِرا دے تو کوچۂ سیاست کا در وا ہو جاتا ہے۔ نئے آنے والوں کو اختیارات کی دلکشی اپنے جلوے دکھاتی ہے۔ وہ واپس جانا نہیں چاہتے۔ مگر کوچۂ سیاست کی زمین نرم ہے۔ کسی بھی لمحے پائوں کے نیچے سے سِرک جاتی ہے۔ قدم جما کر چلنا ضروری ہے۔ اختیارات استعمال کرنے کی ’’چس‘‘ میں پائوں کب اور کہاں پھسلے، اِس کا علم نہیں ہوتا۔

ایوب خان کے لئے 1962ء میں موقع تھا کہ وہ نیا آئین دے کر باعزت واپسی کا راستہ اختیار کرتے، مگر اُنہیں اپنے بیٹے کو صنعتکار بنانے کا ’’چس‘‘ لے ڈوبا۔ یحییٰ خان بھی الیکشن کے بعد اسمبلی کا اجلاس بلاتے۔ جو بھی ہوتا، گمان ہے کہ سیاست کی لچک پاکستان کو قائم رکھتی۔ ایوانِ اقتدار کی بدمستیوں سے جُڑا ’’چس‘‘ آڑے آ گیا۔ نہ وہاں قیام کو دوام حاصل ہوا اور نہ پاکستان قائم رہا۔ 2002ء میں مشرف کے پاس بھی سنہری موقع تھا، مگر اِسی ’’چس‘‘ نے اُنہیں ریفرنڈم کی راہ دکھائی۔ گنتی پر پتہ چلا کہ اُن کی حمایت میں آنے والے ووٹ رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی زیادہ تھے۔ حکمرانی کا اخلاقی جواز ختم ہو تو ایوانِ اقتدار سے بے آبرو ہو کر نکلنا یقینی ہو جاتا ہے۔

چشمِ فلک نے ہمیشہ دیکھا کہ بڑی بڑی ہستیوں کو مست ماحول کی تلاش کوچۂ سیاست میں لے آتی ہے۔ عوام کی ترسی ہوئی آنکھوں نے ایوانِ عدل میں اپنے معبود تراشے۔ عبادت پر مائل عوام کو موقع ہی نہ ملا۔ خودنمائی کا ’’چس‘‘ اِن بتوں کو میڈیا کی گلیوں میں خوار کر گیا۔ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے۔ یہی ’’چس‘‘ خوشیوں کے تعاقب کی صورت، انسان کے گرد سنہرے جال بُنتا رہتا ہے۔ غالب نے اِسی طرح کے منظر دیکھ کر کہا تھا ؎’’بازیچۂ اطفال ہے دُنیا میرے آگے۔‘‘

قارئین اگر دل کی آنکھیں کھول کر دیکھیں تو صرف رکشہ ڈرائیور پر موقوف نہیں، عظیم عہدوں پر براجمان قدآور شخصیات اِسی ’’چس‘‘ کے ہاتھوں اپنے ’’رُل‘‘ جانے کا سامان کرتی نظر آتی ہیں۔ آج یہ کالم لکھ رہا تھا تو چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار کا ایک فیصلہ نظر سے گزرا۔ اُنہوں نے وزیرِ اعظم پاکستان کے خلاف ایل این جی معاہدے میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کو آرٹیکل 184(3) کے تحت قابلِ سماعت نہیں سمجھا۔

اُنہوں نے فرمایا کہ ریکوڈک، کار کے اور پاکستان سٹیل کی طرح کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ یہ ایک بہت صحت مند تبدیلی ہے۔ اِس فیصلے کی تعریف کے ساتھ قوم کو شکر کا سانس لینا چاہئے۔ جو شخصیات ماضی کے دوران ریاست کے معاشی معاملات میں مداخلت کرتی رہیں، معلوم نہیں اُنہیں ’’چس‘‘ آیا یا نہیں مگر اِس نقصان دہ دخل اندازی سے پاکستان کی معیشت ’’رُل‘‘ گئی۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood