عاصمہ جہانگیر…. قطبی ستارہ ٹوٹ گیا


مردوں کے معاشرہ میں دلیر، موثر،توانا اور مضبوط ترین آواز جس نے ہر نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں، ہر آمر، ہر حکمران،ظالم وڈیروں،جاگیرداروں کے سامنے ببانگ ِدہل کلمہ حق کہا،جو پاکستان میںمزاحمت کی علامت اور کچلے ہوئے مظلوم و محروم طبقات کے دل کی آواز تھی ، جو ہمیشہ کٹھن آزمائش کے وقت میں اُصولوں اور نظریات پر جرات مندی سے ڈٹی رہی ،روایت شکن،ترقی پسند سوچ کی حامل اور اس پر عمل کرنے والی یہ لبرل باہمت، دلیر خاتون معروف سماجی کارکن، قانون دان،جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر 11،فروری ،2018ء کو 66 برس کی عمر میں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے برین ہیمرج اور دل کا دورہ پڑنے سے لاہور میں انتقال کر گئیں۔عاصمہ جہانگیر کی تمام زندگی کی جدوجہد شیخ سعدی ؒ کے اس قول کا خوبصورت عملی نمونہ ہے”ہمت طاقت سے زیادہ کام کرتی ہے “۔

 عاصمہ جہانگیر 27،جنوری،1952ءکو لاہور میں پیدا ہوئیں۔انہوں نے کانونٹ جیسسز اینڈ میری کالج سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ،کنئیر ڈ کالج سے بی اے، پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ لندن اسکول آف اکنامکس اور سینٹ گیلن یونیورسٹی سے (جے ایس ڈی) کی ڈگری بھی حاصل کی اور وکالت کو انہوں نے بطور پیشہ اپنایا۔تعلیم کے ساتھ ان کے گھریلو ماحول نے بھی ان کی شخصیت پر گہرے مثبت اثرات مرتب کئے کیونکہ ان کا گھریلو ماحول علمی،روشن خیال ،ترقی پسند تھا اور پھر ملک غلام جیلانی عوام کے بنیادی حقوق کے لئے جو عملی سیاسی جدوجہد کر رہے تھے گھر میں اُس بارے میں گفتگو سن اور دیکھ کر بھی غیر محسوس طریقے سے عاصمہ جہانگیر کی ذہن سازی ہوتی جا رہی تھی جس کے نتیجے میں سچ کا ایک سورج عاصمہ جہانگیر کی صورت میں ظلمت کی تاریکیوں میںسچائی اور شعور کی روشنی بکھیرنے کو تیار تھا لیکن یہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ آفتاب اپنی پہلی کرن کب اور کہاں بکھیرے گا۔

آخر کا ر قدرت وہ وقت بھی لے آئی جب 22، دسمبر ، 1971ءکو بھٹو مرحوم نے عاصمہ کے والد کو مارشل لاءکے قانون کے تحت گرفتار کر کے ملتان بھیج دیا۔اس وقت عاصمہ کی عمر اکیس برس تھی جب مارشل لاءکے ڈر سے ان کے والد کا کیس بڑے بڑے نامی گرامی وکلاءنے لڑنے سے انکار کردیا تو اُس وقت کی غیر معروف عاصمہ نے اپنے والد کا کیس پامردی سے لڑ کر نہ صرف والد کو رہا کرایا بلکہ آمر کی حکومت کو عدالت سے غیر آئینی قرار دلوا کر پاکستان کی آئینی تاریخ میںایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا۔یاد رہے کہ اسی کارنامے کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو سول مارشل لاءختم کرنا پڑا اور ملک کا آئین فوری طور پر تشکیل دیا گیا اُس وقت عاصمہ غیر شادی شدہ تھیں اس لئے یہ کیس عاصمہ جیلانی بنام ریاستِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔اس کے بعد عاصمہ نے پلٹ کر پیچھے نہ دیکھا اور انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کے لئے بے لوثی ،مخلصی ،ہمت اور جرات مندی سے کارناموں پر کارنامے سر انجام دیتی چلی گئیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

ضیاءالحق مرحوم کے مارشل لاءمیں جب قانون شہادت میں ترمیم کر کے عورتوں کی گواہی آدھی کی گئی تو عاصمہ جہانگیر نے اس کے خلاف 12 فروری 1982ءکو لاہور میں جلوس نکالا۔خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز پر مبنی قانون سازی کے خلاف مزاحمت کے لئے عاصمہ جہانگیر نے 1983ءمیں ویمن ایکشن فورم کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا اورنیلم حسین، روبینہ سہگل، لالہ رخ،نگہت خان، شہلا ضیاء،نگار احمد،فریدہ شہید و دیگر خواتین کے ساتھ مل کر ضیا ءالحق کے بنائے سیاہ قوانین کے خلاف ڈٹ کر لڑائی لڑی۔ پاکستان میں کوئی عورت اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی تھی۔عاصمہ جہانگیر نے عدالت سے پاکستان کی عورت کو اس کا مذہبی اور آئینی حق دلوایا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے شادی کر سکے ۔

آمر ضیاءالحق کے دور میں ظلم و جبر کے خلاف عاصمہ جہانگیر کی جانب سے نکالی جانے والی ایک احتجاجی ریلی پر پولیس تشدد کیا گیا جو پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ 1983ءمیں انہیں ضیاءالحق کی حکومت کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے پر قید بھی کیا گیا لیکن انہوں نے ہار نہ مانی۔

اُن کا ایک اور مشہور کیس 1983ءمیں ضیاءالحق کے مارشل لاءدور میں ایک مظلوم نابینا بچی صفیہ کو انصاف دلانا ہے۔ اس کیس میں تیرہ برس کی نابینا صفیہ بی بی کو عدالت قید اور جرمانے کی سزا سنا کر جیل بھیج چکی تھی کیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی کے گواہ نہیں پیش کر سکی تھی اور ملزمان نے ثابت کر دیا تھا کہ صفیہ بی بی نے اپنی مرضی سے یہ گناہ کیا ہے اس کے باوجودباہمت عاصمہ جہانگیر نے یہ کیس لڑا اور مظلوم صفیہ کو بچا کر انصاف کا بول بالا کیا۔ 1986ءمیں عاصمہ جنیوا منتقل ہوگئیں جہاں انہیں ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل کی وائس چئیر پرسن بنا دیا گیاوہ 1988ءمیں وطن واپس آئیں۔

عاصمہ جہانگیر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بانی اراکین میں سے تھیں۔1987ءمیں انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی سیکریٹری جنرل بنیں اور 1993 ءمیں انہیں انسانی حقوق کمیشن کا چئیر پرسن بنا یا گیا۔

غیرت کے نام پر قتل کے خلاف عاصمہ نے اُس وقت آواز اُٹھائی جب ملک کے 90فیصد افراد روایات کے ڈر کی وجہ سے اس کے خلاف بولنے سے کتراتے تھے۔ اس غیر انسانی فعل کے خلاف عاصمہ جہانگیر کے آواز بلند کرنے اور عملی جدوجہد کر نے کی بدولت عوام کے ذہنوں سے خوف وڈر دور ہوا اور ان میں حوصلہ،ہمت ،شعور بیدار ہوا یقیناً جس کی وجہ سے بے شمار انسانی جانیں محفوظ ہوئیں اور ہوتی رہیں گی۔

 عاصمہ جہانگیر کا ایک اور نہ بھولنے والا کیس 1993ءمیں سلامت مسیح کیس ہے ۔ اس کیس میں چودہ برس کے سلامت مسیح کو مذہب کی توہین کے جرم میں سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔ اس کے باوجود اس حساس ترین کیس کو عاصمہ جہانگیر نے ہمت و جرات اور دلائل کے ساتھ لڑ کر عدالت کے سامنے یہ ثابت کیا کہ چند شرپسندوں نے مذہب کا نام استعمال کر کے اس بچے کو پھنسایا ہے جس کو عدالت نے مانا جس کی بدولت ایک انسانی جان بچی بلکہ اسلام کے مطابق” ایک انسانی جان کو بچا کر عاصمہ جہانگیر نے تمام انسانیت کو بچانے کے ساتھ اسلام کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کر نے والوں کو شکست سے دوچار کیا“۔ یاد رہے عاصمہ جہانگیر مظلوم و محروم طبقے کے مقدمات بلا معاوضہ لڑتی تھیں۔

عاصمہ جہانگیر اور بے نظیر بھٹو بچپن کی دوست تھیں لیکن جب کبھی اُصول کی بات آئی تو عاصمہ جہانگیر نے ہر دور میں بے نظیر بھٹو کی زبردست سیاسی مخالفت کی ۔بے نظیر بھٹو نے عاصمہ جہانگیر کو پاکستان کی پہلی خاتون جج بننے کی پیش کش بھی کی لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا جو کہ ان کی خودداری اور اُصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کی ایک روشن مثال ہے۔ آمر پرویز مشرف کے دور میں جب سیاسی رہنماﺅں کو نظر بند کیا گیا تو سب سے پہلی آواز عاصمہ جہانگیر نے اُٹھائی اور آمر مشرف کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے سیاسی نظر بندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔

آمر مشرف کے دور میں جب اکبر بگٹی سخت عتاب میں گرفتار تھے عاصمہ جہانگیر اکبر بگٹی کے ساتھ کی جانیوالی زیادتیوں کے خلاف اکبر بگٹی سے اظہار یکجہتی کے لئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ڈیرہ بگٹی بلوچستان روانہ ہوئیں جہاں اُن کی کار پر فائرنگ بھی کی گئی لیکن وہ ڈری نہیں ۔اُن پر کیا گیا حملہ ناکام رہا تو انہوں نے حملہ آوروں کو پکار کر تاریخی جملے کہے کہ” آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی لیکن میرا سفر ختم نہیں ہوگا“۔

نومبر 2007ءمیں جب پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو انہیں بھی گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔عاصمہ جہانگیر اپنے بدترین مخالفوں کے لئے بھی انصاف کی بات کرتی تھیں۔انہوںنے اُسامہ بن لادن کے اہل خانہ کی نظر بندی پر آواز بلند کی، اکیسویں آئینی ترمیم کی مخالفت کی۔ایم کیو ایم پر شدید تنقید کرنے کے باوجود اُصول کی بنیاد پر عاصمہ جہانگیر نے الطاف حسین کا کیس لڑا۔ عاصمہ جہانگیر مذہبی آزادی کی علمبردارتھیں۔وہ مذہب مخالف نہیں تھیں بلکہ وہ مذہب پر کچھ نام نہاد عناصر کی خود ساختہ اجارہ داری کی مخالف تھیںجن کے سامنے اُنہوں نے کبھی سر تسلیمِ خم نہیں کیا۔حیران کن امر یہ ہے کہ جس خاتون کو پاکستان میں مذہب دشمن قرار دیا جاتا تھااسے اقوامِ متحدہ نے دنیا بھر میں انسانی حقوق و مذہبی آزادی کے تحفظ کے لئے چھ برس تک اپنے مندوب کا منصب سونپے رکھا۔ عاصمہ جہانگیر کو ان کے مخالفین نے کافر، مرتد، قادیانی، غدار اور بھارت کے ا یجنٹ کے القابات سے نوازا لیکن وہ کبھی مایوس نہیں ہوئیں۔ عاصمہ جہانگیر کو جان کا بہت زیادہ خطرہ رہتا تھا لیکن اُنہوں نے اس کی بھی کبھی پرواہ نہیں کی اور ہمیشہ خوف کو شکست دیتی رہیں۔

عاصمہ جہانگیر نے دلیری اور سچائی سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوںکے لئے آواز اُٹھائی۔2017 ءمیں اقوامِ متحدہ کی رپورٹر کی حیثیت سے عاصمہ سری نگر گئیں اور واپسی پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر چشم کشا رپورٹ پیش کی جو ساری دنیا کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ٍ

سینٹر فار پیس ،ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمزکے زیرِ اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے تاریخی تقریر کی جس میں انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مکار قرار دیاجس نے کشمیر اور بلوچستان کا موازنہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔جب یہ تقریر میڈیا میں نشر ہوئی تو بھارت میں آر ایس ایس والوں نے انہیں پاکستانی ریاست کا خفیہ ہتھیار قرار دے دیا۔

مزدور ،کسان اور ورکرز کلاس کے حقوق کا تحفظ اور اس پر قانون سازی میں بھی عاصمہ جہانگیر کا کردار نا قابلِ فراموش ہے ۔لاہور ہائیکورٹ میں عاصمہ کی جانب سے بھٹہ مزدوروں پر جاگیرداروں کے جبری مشقت کے ظلم کے خلاف دائر کئے جانے والے مقدمے کا یادگار فیصلہ بھی پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا کیونکہ اس فیصلے میں عدالت نے جبری مشقت کو غیر قانونی قرار دیا تھاجس سے نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ سمیت ملک بھر میں مزدوروں، کسانوں کو فائدہ پہنچا۔ عاصمہ جہانگیر محترمہ فاطمہ جناحؒ، اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی طرح د لیر ،اُصولوں پر ڈٹ جانے اور پیچھے نہ ہٹنے والی خاتون تھیں۔

انسان ہونے کے ناطے عاصمہ جہانگیر سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی۔ اُن کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن عاصمہ جہانگیر نے جس طرح بے باکی اور جرات مندی سے سیاسی و فوجی حکمرانوں ،نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں،وڈیروں، جاگیرداروں پر تنقید کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔عدلیہ کی آزادی، اظہارِ رائے کی آزادی، مذہبی آزادی، اقلیتوں ، جمہوریت،آئین، قانون ، انصاف ،انسانی حقوق ،بچوں، خواتین،ہاری، مزدوروں اور دیگر مظلوموں کے لئے عاصمہ جہانگیر کی بے لوث ،مخلصانہ،بے باکانہ ،جرات مندانہ عملی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ عاصمہ جہانگیر کو اُن کی مخلص اور جرات مندانہ خدمات کے صلے میں ملکی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا جن میں رائیٹ لائیولی ہڈ ایوارڈ ،فریڈم ایوارڈ ،مارٹن اینلز ایوارڈ برائے انسانی حقوق ،یونیسکو بل باو پرائز فار دی پرموشن آف کلچر آف ہیومن رائٹس کے علاوہ فرانس کے سب سے بڑے اعزاز آفیسر ڈی لالیجیون سے بھی نوازا گیا،2010ءمیں انہیں حکومتِ پاکستان نے ہلالِ امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا ۔

 عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہونے والی پہلی خاتون بھی تھیں اور وہ ججزبحالی میں بھی آگے آگے رہیں۔ عاصمہ دو کتابوں (1) Divine Sanction? The Hudood Ordinance(1983,2002) اور (2) Children Of a Lesser God: Child Prisoners Of Pakistan(1992). کی مصنفہ بھی تھیں۔

عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات سامنے آئے ۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گوٹریس نے عاصمہ جہانگیر کو ایک بہادر خاتون قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”دنیا ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئی ہے“،شبانہ اعظمی نے کہا کہ” پاکستان میں حقوق انسانی کی سب سے بے خوف اور بلند قامت رہنما گزرگئیں “،جاوید اختر نے کہاکہ” بلاشبہ بہادر ترین اور انسانی حقوق کے لئے جی جان سے لڑنے والی ،آمروں کے غیض و غضب کا اور انتہا پسندوں کے طیش کا نشانہ بننے والی عاصمہ اب ہم میں موجود نہیں“،مہیش بھٹ نے لکھا کہ ”وہ ایک غیر معمولی عورت تھیں جو عام انسانوں کے حقوق کے لئے لڑتی رہیں،عاصمہ میں وہ ہمت تھی جس سے انہوں نے ایک منصفانہ دنیا کے لئے لڑائی لڑی۔

عاصمہ جہانگیر کی نمازِ جنازہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں سید ابو الاعلی مودودی کے صاحبزادے حیدر فاروق مودودی نے پڑھائی جس میں ملک بھر سے سیاستدانوں، ججز و وکلاءصاحبان، اراکین پارلیمنٹ،سماجی شخصیات، دانشور،صحافی ،تاجر،انسانی حقوق کی تنظیموں ،خواتین سمیت عام شہریوں کی ان گنت تعداد نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں بھی ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی ۔

عاصمہ جہانگیر کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اربابِ اختیار کو چاہئیے کہ ہر سال 11،فروری کے دن کو عاصمہ جہانگیر ڈے کے نام سے منائیں ،عاصمہ جہانگیر کے نام سے ڈاک ٹکٹ کا جراءکریں،نصاب میں ان کے انسانیت کی بلا تفریق خدمات کے جرات مندانہ کارناموں کو اسکول تا یونیورسٹی کی سطح پر سبق کے طور پر شامل کریں اور عاصمہ جہانگیر کے نام سے ایک نئی سرکاری یونیورسٹی قائم کریں ۔اللہ تعالی عاصمہ جہانگیر کی مغفرت فرمائے۔آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).