محبت کی رگوں میں آپ کا خون ہے


محبت کرنا اور نبھانا اتنا ہی آسان اور مشکل ہے جتنا بالترتیب تتلی کو پکڑنا اور پھر اسے طویل عرصے تک زندہ رکھنے کی تک و دو کرنا ہے!

اور یوں ہے کہ محبت اور تتلی میں کئی چیزیں مشترک ہیں. یہ دونوں ہی چار حرفی لفظ ہیں، دونوں کے پر لگے ہوتے ہیں، دونوں کے رنگ خوبصورت ہوتے ہیں، تتلی پھولوں کا رس چوستی ہے تو محبت انسان کا خون. دونوں ہی سفر میں رہتے ہیں، دونوں ہی ایک دم پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ دونوں ہی اچانک مر جاتے ہیں!

محبت کسی ایک صنف کی جاگیر نہیں ہے لیکن ہمارے معاشرے میں مرد کا محبت کے فلسفے میں ابا والا کردار ہے اور لڑکی کا اماں والا.. اور محبت ان کی اولاد بن کر دونوں کی آغوش میں پہلے تو نومولود بن کر پنپتی ہے پھر نونہال ہو کر غوں غاں کرنا شروع کرتی ہے تو یہ ماں باپ بھی اسے دیکھ کر اپنا خون بڑھاتے ہیں. پھر یہ اولاد نما محبت جب دانت نکالنا شروع کرتی ہے تو اس کے مختلف طریقے ہوتے ہیں. کبھی یہ ماں باپ کو پوری پوری رات جگاتی ہے تو کبھی دن بھر بے چین رکھتی ہے. کبھی قے پر قے کرتی ہے تو کبھی اسے دست لگ جاتے ہیں.

پہلی بار ماں یا باپ بننا آسان کام نہیں ہے. ماں تو خیر اپنا دودھ ہی نہیں خون بھی پلا دیتی ہے اپنی اولاد کو لیکن کچھ ماں باپ کو پوسٹ پارٹم ڈیپریشن ہو جاتا ہے. اس ڈیپریشن کے اثرات مزاج کی بدنظمی، نیند اور بھوک کا اڑ جانا، بلا وجہ تھکن کا شکار رہنا اور وقفے وقفے سے بلا وجہ رونے کی شکل میں سامنے آتے ہیں. عجیب بات یہ کہ محبت میں پڑنے والے لوگ بھی اسی قسم کے سائڈ ایفیکٹس کا شکار رہتے ہیں اور اسی کیفیت سے باہر آنے کے بعد شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے.

پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کا اثر کچھ لوگوں پر یوں ہوتا ہے کہ وہ سوچتے ہیں شاید یہ وقت کبھی نہیں گزرے گا اور ہم اسی طرح اس ننھے مہمان کی خدمت کرتے کرتے اپنی جوانی کھو کر ناتوانی خرید بیٹھیں گے. لیکن کچھ لوگ بخوشی اپنی جان مار مار کر اس اولاد کے ناز اٹھاتے ہیں اور کچھ اسے کندھے پر بٹھائے اور کچھ سینے پر سجائے گھومتے ہیں. ایسے موقع کے لئے فارسی کی ایک کہاوت ہے.

“شاد باید زیستن نا شاد باید زیستن”

یعنی زندگی ہنس کر گزارو یا رو کر گزارنی تو ہے بہر حال.

تو اسی طرح ہنستے روتے زندگی کی گاڑی بھی رواں دواں رہتی ہے اور انسان کی اولاد نما محبت پروان چڑھتی ہے یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے جوان ہو جاتی ہے. اب اگر ماں باپ نے قربانیاں دے کر اس کی اچھی پرورش کی ہوگی تو وہ معاشرے میں کسی مثبت اضافے کا سبب بنے گی اور اگر ماں باپ نے اسے بوجھ سمجھ کر پالا ہو تو وہ احساس کمتری کا شکار اولاد معاشرے پر بھی بوجھ ہی ثابت ہوگی. اس سارے عمل میں کچھ ماں باپ اس معصوم سی جان کی وجہ سے ایک دوسرے سے متنفر ہوئے چلے جاتے ہیں جب کہ اسے پیداکردہ بھی آپ ہی ہوتے ہیں. ایسے میں اکثر باپ اس اولاد کو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد افتاد خیال کر کے ماں پر دبائو ڈالنا شروع کر دیتے ہیں اور معاملا ہو جاتا ہے یہاں سے خراب!

تو جناب اس ساری کہانی کو اتنا گھمانے پھرانے اور پھر اسے مرغے کی ایک ٹانگ بنانے کا مقصد یہ ہے کہ محبت کو اپنی اولاد اور عورت کو اس کی ماں سمجھ کر اس سے ممتا والی قربانیوں کا تقاضا کرنے سے حاصل صفر بٹا صفر ہوگا.

بہت سیدھا سادھا طریقہ ہے بھئی آج کے سائنٹیفک دور میں محبت دو دلوں کے درمیان پیدا ہونے والا خوف صورت جذبہ ہے. بس اس “خوف” کے ف سے اگر تو آپ اپنی اناء کو “فنا” کردیں تو یہ جذبہ بہترین کے “ب” سے ردوبدل کے نتیجے میں خوب صورت ہو جائے گا.

عزت کا بیچ بو کر محبت پیدا کریں تو اس کے ثمرات دیکھ کر آپ کو خود پر حیرانی ہوگی لیکن ہوس کا بیج بوئیں گے تو صرف پچھتاوا ہی کاٹیں گے.

اگر آپ شادی شدہ ہیں یا بس شادی شدہ نہیں ہیں باقی سب ہیں تو جس سے آپ محبت کرتے ہیں اسے اپنی طرح کا بندہ بشر سمجھ کر اس کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو درگزر کر دیں. اپنے جیون ساتھی کے ساتھ عزت کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھیں تو دوسرا قدم محبت کی جنت میں ہوگا.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).