محکومی کی نفسیات اور عاصمہ جہانگیر


معاشرے میں انتشار کا عالم یہ ہے کہ کسی ایک واقعہ پر بھی یک زبان ہوکر ایک بات کہنا ممکن نہیں رہا۔ اس موضوع پر اپنی طالب علمانہ گزارشات منتشر معاشرے کی فکری اساس” کے عنوان سے پیش کر چکا ہوں۔ کوئی خوشی کی خبر ہو یا دکھ کی گھڑی۔۔۔ ہر صورت حال افتراق کی موجودہ حالت میں مزید اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس انتشار کے اسباب پر اپنی خام خیالی قسط وار گزارشات کی صورت میں عرض کر چکا۔ آج ان باتوں کو دہرانا مقصود نہیں ہے۔ آج ایک اعتراف کا دن ہے۔ یہ اعتراف اس احساس پر مبنی ہے جس نے گزشتہ اتوار کے دن عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد سے لے کر آج تک روح اور جسم کو جکڑا ہوا ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنا ہے کہ میں ایک بہت ہی کمزور انسان ہوں۔ میں اتنا کمزور ہوں کہ ہم سب پر شائع ہونے والی تحریروں میں کبھی کھل کر کسی کا نام تک نہ لے سکا۔ جب دوستوں نے سبب پوچھا تو اپنے نام نہاد پروفیشنل ازم کے پیچھے چھپ گیا۔ ملتان کے آرٹس فورم میں صاحبان علم کے اصرار پر بھی ان لوگوں اور گروہوں کے نام نہیں لیے جن کی جانب روئے سخن تھا۔ میں ایک بزدل انسان ہوں مجھے ڈر لگتا ہے کہ اگر نام لیا تو لوگ میرے اور میری تحریروں کے خلاف تبصرے کریں گے۔ گالیاں دیں گے۔ اسی خوف کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرتا۔ بعض اوقات غصے میں کھول کے رہ جاتا ہوں مگر چپ رہتا ہوں۔ وہ احباب جو کھل کر لکھتے ہیں ان پر رشک بھی کرتا ہوں اور ان سے رقابت بھی محسوس کرتا ہوں۔ چند ایک کو احتیاط کے مشوروں سے بھی نواز چکا ہوں۔

گالیوں کے ڈر کے علاوہ جو دوسرا خوف دامن گیر رہتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ مجھے مخالفت برائے مخالفت سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ ڈر اصل میں مجھے اپنے آپ سے لگتا ہے مجھے اپنے تعصبات سے ڈر لگتا ہے۔ اپنی بات دہراتا ہوں۔ رائے سے نہیں, تعصب سے ڈر لگتا ہے۔ تعصب سے میری مراد اندھی محبت اور اندھی نفرت ہے آپ جانتے ہیں کہ متعصب افراد اور گروہ پہلے کچھ سانچے اور لیبل تراشتے ہیں پھر ناپسندیدہ افراد کو ان سانچوں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ ان پر کچھ لیبل چسپاں کرتے چلے جاتے ہیں محب وطن، غدار، ملحد، اسلامسٹ، لبرل، رجعت پسند، اور ترقی پسند ایسے ہی چند سانچے اور لیبل ہیں۔۔۔۔ جس پر یہ لیبل ایک دفعہ لگ جائے وہ لاکھ کہے کہ یہ لیبل میرے لیے موزوں نہیں ہے مگر یہ ان کی جان نہیں چھوڑتا۔ آپ نے یہ تو دیکھ لیا ہے کہ ان لیبلز میں آنے والی سختی اور کرختگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ سانچے روز بروز اتنے پختہ ہوتے جا رہے ہیں کہ جو ایک دفعہ ان میں ڈال دیا جائے پھر وہ ان سے نکل نہیں سکتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ ایسا تعصب کہیں مجھ میں بھی سرایت نہ کر جائے حالانکہ حالات اس کے لیے بہت سازگار ہیں۔

ایسی صورت حال میں “اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنا” ایک نعرے کے طور پر جتنا دلربا ہے اتنا ہی پرفریب بھی ہے۔ پہلے بھی کہہ چکا اب پھر کہتا ہوں کہ پورا معاشرہ ردعمل کی نفسیاتی پیچیدگی کا شکار ہے۔ کسی کے سامنے کوئی ایک اصول نہیں بلکہ صرف ایک دوسرے کی مخالفت پیش نظر ہے۔ اس پر طّرہ یہ کہ اس مخالفت کا اظہار بھی صرف اس بات پر منحصر ھے کہ میرا مخاطب کتنا کمزور ہے۔ جو کمزور ہے اس کے خلاف خیالات کا اظہار پوری قوت اور شدت سے ہوگا۔ طاقتور (یعنی ضرر رساں) کے خلاف زبانیں گنگ ہو جائیں گی۔ تازہ مثال مزاح نگار انور مقصود کی ہے۔ کراچی میں بیٹھ کر نوازشریف کے خلاف بولنا ان کے لئے کتنا آسان ہے اس کا اندازہ آپ کو تب ہوگا جب آپ ان کے ایم کیو ایم کے بارے میں کسی فرمودے کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے اور ناکام رہیں گے۔

آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یاد دلاؤ ں مشہور برطانوی دانشور اور صحافی رابرٹ فسک کی کہی گئی ایک بات جو وہ ایک اسرائیلی خاتون صحافی عامرہ ہاس سے منسوب کرتے ہیں۔ عامرہ ہاس کے نزدیک صحافت طاقت کے مراکز پر نظر رکھنے کا نام ہے۔۔۔ غور فرمائیں کمرشل میڈیا کے دور میں صحافت کی اس تعریف کے کیا معنی ہوں گے۔

واپس وطن لوٹیے اور ڈھونڈھیں اس شخصیت کو جس نے ملک میں طاقت کے مراکز پر نظر رکھی ہو۔۔۔ کڑی نظر رکھی ہو۔۔۔ان کے کرتوت و کارگزاری پر گرفت کی ہو۔ سر عام کی ہو۔۔ با آواز بلند کی ہو ۔۔بلا جھجک کی ہو۔۔۔ بین السطور نہیں، کھلے لفظوں کی ہو۔ لیکن طاقت کے مراکز کے چھوٹے کارندوں سے محبت کے ساتھ۔۔۔۔ انتہاپسندی کے ہر رنگ اور اس کی ہر سطح پر مخالفت کی ہو مگر انتہا پسندوں کے لیے زندگی کی دعا کے ساتھ۔۔ معاشرے کے ہر کمزور اور بے طاقت طبقے کے ساتھ کھڑی ہوئی ہو مگر طاقتور کو ناپید کرنے کی خواہش کے بغیر۔۔ ایسی شخصیت میری ان دونوں طرح کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور کمزوریوں کا حل فراہم کرتی ہے جو ابھی میں نے اوپر بیان کی ہیں۔

میں تعزیتی مضمون لکھنے والا آدمی نہیں ہوں۔ یہ عاصمہ جہانگیر کے لیے کوئی تعزیتی مضمون نہیں ہے۔ یہ اپنے احساس محرومی کا نوحہ ہے۔ یہ اپنی بے حوصلگی کا ماتم ہے۔ یہ خاموشی کی ثقافت کا مرثیہ ہے۔ مجھے لوگوں اور اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ مجھے نقصان نہ پہنچا دیں۔ اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں ایک متعصب شخص بن کر نہ رہ جاوں۔۔۔عاصمہ جہانگیر نے ان ہر دو طرح کے خوف اور قباحتوں سے نجات پا لی تھی۔وہ نہ کسی اور سے ڈری نہ اپنے آپ سے۔۔وہ نہ کسی کے حق میں تھی نہ کسی کے خلاف۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ طاقتوروں کے خلاف تھی۔۔ لوگوں نے غلط کہا ۔۔۔اس سے زیادہ طاقتور خود اور کون ہوگا اس معاشرے میں۔۔۔۔خوف سے نجات پا جانے سے زیادہ طاقت اور کیا ہوسکتی ہے۔۔۔ وہ طاقت کے غلط استعمال کے خلاف تھی۔۔ جس جس نےجب جب طاقت کو غلط استعمال کیا یا کرنا چاہا وہاں طاقت کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔۔۔ اصل میں وہ کسی کے خلاف نہیں تھی وہ صرف کمزوروں کے ساتھ تھی کمزوری کی نفسیات کا ایک اہم پہلو خاموشی ہے۔ طاقت کا ایک نمایاں عیب اس کا شور اور شوریدہ سری ہے۔ عاصمہ نے کمزوری کی نفسیات کو کمزوروں کی آواز بن کر توڑنے کی کوشش کی۔ لوگوں کی دعا ہے کہ عاصمہ کا خلا کوئی اور عاصمہ جلد پورا کردے میری دعا ہے کہ آئندہ اس معاشرے کو کسی اور عاصمہ کی ضرورت کبھی نہ پڑے۔۔

اس سیریز کے دیگر حصےعاصمہ جہانگیر کے نامکاش عاصمہ جہانگیر اپنی صحت کا خیال رکھتیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).