کیا دلال اور بھگت ایک سی عزت کے مستحق ہیں؟


جب کہا جاتا ہے، کہ ہماری ٹیلے ویژن انڈسٹری زوال پذیر کیوں ہے، تو میرا سوال ہوتا ہے، کہ ہماری کون سی انڈسٹری ترقی کی جانب گام زن ہے؟ چلیے ہم اسی انڈسٹری کی فوکس کرتے ہیں؛ یکساں موضوعات، ایک سی پروڈکشن، ایک دوسرے کی نقالی کرتے پروگرام، واضح طور پہ بتاتے ہیں، کہ ٹیلے ویژن انڈسٹری کو تخلیق کار نہیں، سیلز مین رن کرتے ہیں؛ چینل مالکان کو وہی بھاتا ہے، جو کما کے لائے؛ اگر لال مرچوں میں اینٹ کا برادہ ڈالنے سے زیادہ فائدہ ہے، تو ڈال دیا جائے۔

جب یہ کہا جاتا ہے، کہ لکھنے والے، ہدایت کار، پروڈیوسر، اداکار بھِیڑ چال کا شکار ہیں، تو کسی حد تک جی کٹتا ہے؛ اِس میں کوئی شبہہ نہیں، کہ دیگر اداروں کی طرح، یہاں بھی غیر معمولی افراد کی بہتات نہیں، لیکن جو ہیں، یہ اُن کی کون سنتا ہے؟ ایسا اسکرپٹ ہی نہیں بِکتا، جو کسی معروف پروگرام کی نقالی کر کے نہ بنایا گیا ہو؛ کیوں کہ سیلزمین کہتا ہے، ویسا مال لاو، جیسا فلاں‌ چینل پہ چلتا ہے؛ کیوں کہ اُسے بہت اشتہار ملتے ہیں؛ انویسٹر کو پروڈیوسر کہا جانے لگا ہے؛ انویسٹر صرف ایک ہی شرط پہ انویسٹ کرتا ہے، کہ اُس کے سرمائے کو ہر حال میں تحفظ مہیا کیا جائے؛ اُس کی نظر میں معیار، تخلیق، اخلاق، تہذیب اور اسی طرح کے الفاظ دگر کتابی باتوں کے سواکچھ نہیں؛ یہ تو اُن کی بات تھی جنھیں اخلاق، معیار کی شناخت ہے، لیکن آنکھیں چراتے ہیں، بہت سے وہ ہیں، جو ان لفظوں ہی سے نا آشنا ہیں، مفہوم تو دور کی بات۔

ہندوستان کی مثال دی جاتی ہے، تو یہ مثال ہی غلط ہے؛ ایک وجہ تو یہ کہ وہاں ریاست آرٹ کے شعبوں کو سہولت فراہم کرتی ہے، یوں بھی کہ وہاں آرٹ کی کسی فارم کو غیر مذہبی نہیں کہا جاتا؛ یہاں ہم اسی بات کا فیصلہ نہیں کر پائے، کہ تصویر کشی، عکاسی، گلوکاری، اداکاری اسلامی ہیں، حرام ہیں، یا حلال! وہاں مہدی حسن جیسے گلو کار کے لیے یہ کہا جاتا ہے، کہ اِن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے، اور یہاں مہدی حسن کو کنجر نہیں، تو مراسی تو ضرور کہا جائے گا؛ یہ الگ بات ہے، کہ ہم اِن مراسیوں کی نقالی کرنے میں‌ عار نہیں محسوس کرتے۔

مراسیوں پہ انویسٹ کرنے والے تماش بین ہی کہلائیں گے، اور بھگوان کی پوچا کرنے والے بھگت؛ آپ کہیے، کیا دلال اور بھگت ایک سے اعزاز کے مستحق ہیں؟

المختصر؛ انڈسٹری کو کسی کی نہیں، صرف اچھے، سمجھ دار اور با ہمت پروڈیوسرز کی ضرورت ہے؛ ایک اچھا پروڈیوسر، تازہ موضوعات، اچھے مصنف، اچھے ہدایت کار، اچھے اداکار کو تلاش کرلیتا ہے؛ لیکن بہت سے تاجر مل کر، ایک اچھا پروگرام نہیں بناسکتے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran