راجیش کھنہ سے یادگار ملاقات


یہ جولائی 2008ء کی بات ہے۔ میرا دوست شعیب عالم جو ایک فلمساز ہے، وہ پاکستان اوربھارت کے فنکاروں کے ساتھ ممبئی میں فلم بنانے میں مصروف تھا۔ مجھے میرے دوست نے کہاکہ میں کچھ دنوں کے لیے فلم کی تیاریوں میں اس کا ہاتھ بٹانے کے لیے ممبئی پہنچوں۔ میں جو ممبئی جانے کے لیے بہانہ ہی ڈھونڈ رہا ہوتا ہوں اپنے دوست کی معاونت کرنے ممبئی پہنچ گیا۔ دو چار روز میں جب میں اپنے ضروری کام نمٹا چکا تو مجھے اپنی ایک پرانی خواہش تنگ کرنے لگی جو مسلسل ممبئی آنے جانے کے بعد بھی ابھی تک پوری نہ ہو سکی تھی۔

یہ خواہش بھارت کے پہلے سپر اسٹار اور میگا ہیرو راجیش کھنہ المعروف کاکا سے ملاقات کرنا تھی۔ کاکا سے ملنے سے پہلے میں ان سے متعلق بہت کچھ جانتا تھا، ان کے ناقابل فراموش فلمی ریکارڈز تو مجھے زبانی یاد تھے اس کے علاوہ میں یہ بھی جانتا تھا کہ اسٹائل اور انداز کا شہنشاہ راجیش کھنہ مردم بیزار انسان ہیں۔ ہر کس و ناکس سے ملنا ان کی طبیعت کے خلاف تھا مگر میں نے ان تک پہنچنے کے لیے انھیں اداکاری کے ’’ہیڈکوارٹر‘‘ سے کہلوایا تو مجھ پر راجیش کھنہ کے بنگلہ کے دروازے کھل گئے تھے۔

کاکا کو میں نے دلیپ کمار صاحب کے سیکریٹری سے کہلوایا تھا جسے آج بھی بالی وڈ میں ’’چیف سیکریٹری‘‘ سے بڑا بیوروکریٹ سمجھا جاتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سہ پہر کے بعد میں جب ان کے ہاں پہنچا تھا تو ملازمین نے کھڑکیوں پر موٹے پردے گرا کر زبردستی شام کر رکھی تھی۔ اس ماحول میں کاکا کی انٹری مجھے ایسے ہی لگی کہ ’’امر پریم‘‘ کے آنند بابو میرے سامنے آ گئے ہوں۔ سفید کرتہ اور پاجامہ کے ساتھ بے پروائی سے شال لیے، آنکھیں بھینچے، ڈرائنگ میں داخل ہوئے۔ کاکا کو میرا تعارف کرادیا گیا تھا، لیکن میں نے یہ مناسب سمجھا کہ میں کاکا کو اپنے متعلق بتاوں۔

محفل کی ابتدا اور گفتگو کا آغاز ہوا تو تھوڑی دیر بعد ماحول کھلتا جا رہا تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں ایک عرصہ سے ممبئی آ رہا ہوں اور ہر بار آپ سے ملنے کے جتن کیے مگر کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ میں نے کاکا کو بتایا کہ 2001ء میں جب پہلی بار آیا تھا تو پروڈیوسر ڈائریکٹر ساون کمار نے آپ سے میرے ملنے کی درخواست کی تھی مگر آپ شاید پونا گئے ہوئے تھے۔ ساون کمار نے راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ’’سوتن‘‘ بنائی تھی جس میں کاکا فورٹی پلس ہونے کے باوجود ہیرو کاسٹ کیے جا رہے تھے۔ اس فلم کا ایک گیت جو کھنہ صاحب کے ساتھ ٹینا منیم پر فلمایا گیا تھا بہت مقبول ہوا تھا۔

شاید میری شادی کا خیال دل میں آیا ہے
اسی لیے ممی نے میری، تمہیں چائے پہ بلایا ہے

کاکا کے ساتھ باتیں کرتے شام رات میں ڈھل چکی تھی۔ کاکا کی خراب صحت اور بڑھاپے کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ احساس بار، بار ہو رہا تھا کہ جوانی کس قدر خوبصورت شے کا نام ہے۔ یہ ڈھل جائے تو زندگی اداس، خاموش اور سنسان ہو جاتی ہے۔ میں 65 سالہ راجیش کھنہ کے سامنے بیٹھا تھا اور ان کی سنگت میں میرا ناسٹلجیا یعنی خوشگوار یادیں مہک اٹھیں تھیں۔ مجھے یہ علم تھا کہ میں اس میگا اسٹار کے سامنے بیٹھا ہوں جس کا منفرد ریکارڈ فلم کے جہان میں دوسراکوئی اسٹار توڑ نہ سکے گا۔

راجیش کھنہ کو اعزاز حاصل تھا کہ ان کی پہلی 16 فلمیں سپرہٹ ہوئی تھیں۔ ممبئی کے لوگ بتاتے ہیں کہ ’’امر پریم‘‘ کی ریلیز پر مہاراشٹرا سمیت انڈیا کے دوسرے صوبوں میں بھی سنیماؤں پر ایک، ایک فرلانگ لمبی قطار دیکھنے کو ملی۔ یہ اعزاز آج تک کسی دوسرے اسٹار کو دوبارہ نصیب نہیں ہوا۔ راجیش کھنہ کے اسٹارڈم کے عروج کے دور میں جب کاکا نگار خانوں سے باہر قدم رکھتے تو نقص امنِ عامہ کا مسئلہ بن جایا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ راجیش کھنہ اپنی گاڑی میں بیٹھے کسی کو اچانک سر راہ نظر آگئے تو سامنے سے آنے والا مرد اور عورت اپنے اوسان خطا کر بیٹھتا جس کے باعث حادثات ہو جاتے۔

راجیش کھنہ کو یوں اچانک دیکھنے اورحادثات ہونے پر مہاراشٹرا حکومت نے انھیں درخواست کی کہ وہ گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھنے کے ساتھ، ساتھ کھڑکیوں کے شیشے کالے کروا لیں۔ اس ملاقات کے آغاز میں کاکا نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی پنجاب کے شہر بورے والہ سے ہیں اورانھیں اپنا گھربار اچھی طرح یاد ہے۔ راجیش کھنہ نے کہا تھا ہماری زندگیوں میں ہمیں یہ دکھ رہا کہ ہندوستان اور پاکستان میں پیار اور محبت کے رشتے استوار نہیں ہوسکے۔

کاکا نے کہا کہ برصغیر کی تقسیم سے جہاں دونوں دیسوں کو آزادی میسر آئی وہاں میرے جیسے لاکھوں بچوں کا گھر بار، کھلونے، اسکولز اور دوست ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ یہ کہتے ہوئے 65 سالہ کاکا مجھے واقعی پنجابی والا کاکا لگا۔ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں وہ اپنے گھر (پاکستان) کویاد کررہے تھے۔ ۔ ۔ کاکا مجھ سے مخاطب ہوئے۔ ۔ ۔ پتر کار بابو (صحافی بابو) سنیل دت صاحب کو ممبئی آئے 65 سال ہوگئے ہیں۔

انھیں ممبئی نے بادشاہ بنا کر اپنے اوپر براجمان کررکھا ہے مگر آج بھی جہلم کو اپنا گھر کہتے ہیں۔ ۔ ۔ اوردلیپ کمار صاحب تو ان سے پہلے ممبئی آئے تھے آج بھی جب ان کی زیارت کرنے پالی ہل کبھی جاتا ہوں توکہتے ہیں۔ ۔ ۔ اوئے لالے گھر بڑا یاد آرہیا اے۔ ۔ ۔ پشاور اور قصہ خوانی بازار انھیں بھولتا نہیں ہے۔ دنیا بھر کی کامیابیاں اوراسٹارڈم ان کے اندر کے اس بچے سے ان کا بچپن نہیں چھین سکا۔ جو میں بھی اپنے اندر لیے پھر رہاہوں۔

کاکا کو جذباتی دیکھ کرمیں نے ان سے پو چھا تو آپ نے پاکستان جانے میں اتنی دیر کیوں کردی؟ کاکانے فلمی اصطلاح کے مطابق ’’ کٹ کرکے‘‘ (مراد منہ موڑ کر) میری طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ۔ ۔ ۔ پتر کار بابو! ٓپ نے بھی تو آتے، آتے بڑی دیر کردی۔ ۔ ۔ کاکا بھارت اورپاکستان کے مابین دوستانہ تعلقات کے خواہشمند تھے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ امیت جی (امیتابھ بچن ) کی والدہ لائل پور(فیصل آباد) سے ہیں، یش چوپڑہ اور بڑے چوپڑہ (بی آر چوپڑہ ) لاہور سے ممبئی آئے تھے، گلزار بھی پاکستان سے آئے، جیتندر چنیوٹ سے ممبئی آئے اورتو اوراپنا کھل نائیک اور بدمعاش پریم چوپڑہ بھی لاہور سے ہے۔

یہ کہتے ہوئے کاکا نے زوردار قہقہ لگایا تو انھیں کھانسی آگئی۔ کاکا کی کھانسی اسے یاد گار محفل کے اختتام کا اعلان بھی تھا۔ کھانسی اب تھمنے میں نہیں آرہی تھی وہ مجھ سے اوربھی بہت کچھ کہنا چاہ رہے تھے مگر ان کی اکھڑی سانسیں اور مسلسل کھانسی کے باعث ان سے بات نہیں ہو رہی تھی۔ اسی اثناء میں ڈرائنگ میں ایک بوڑھی عورت جس نے سفیدساڑھی پہن رکھی تھی وہ داخل ہوئی وہ کاکا کی پشت ملنے لگی۔ بوڑھی عورت نے کہا کاکا آپ کے سونے کا وقت ہو گیا ہے۔

۔ میں نے نہایت ادب سے کاکا سے اجازت چاہی تو انھوں نے کہا۔ ۔ ۔ پاکستان ہمارا گھر ہے، ہمارا بچپن وہیں ہے، پاکستان اورہندوستان کے بڑوں سے ہماری اتنی ہی بنتی (درخواست ) ہے کہ ہم جیسوں کے لیے اپنے دروازے بند نہ کریں۔ کاکا کے ساتھ گزاری وہ شام میری زندگی کا یادگار واقعہ بن کر مجھے یاد رہے گی۔ میری دعا ہے کہ کاکا کی پاکستان اوربھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات اوربھائی چارے پیدا ہونے کی خواہش پوری ہوجائے اور انھیں چین آجائے
او میرے دل کے چین، چین آئے میرے دل کو دعا کیجیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).