میاں صاحب کا لطیفہ


میاں نوازشریف کے سیاسی ستارے اگرچہ گردش میں ہیں لیکن ان کی حسِ مزاح ماند نہیں پڑی۔اسلام آباد پنجاب ہائوس میں مسلم لیگ نون کے اہم رہنمائوں کو میاں صاحب نے لطیفہ سنایا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ریس کورس میں گھوڑوں کی دوڑ دیکھتے ہوئے ایک شخص سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہاتھا۔اس سے پوچھاگیاکہ آپ پریشان ہیں ؟جواب ملانہیں۔اس سے پھر پوچھا گیاکہ اگر آپ پریشان نہیں تو بتائیں کہ ریس میں آپ کا گھوڑا کس نمبر پر دوڑ رہاہے؟اس شخص کا گھوڑا ریس میں سب سے پیچھے دوڑ رہاتھا،اس نے پنجابی میں جواب دیا۔۔میرا گھوڑا اووے جنے سارے گھوڑیاں نوں اگے لایا اے(میرا گھوڑا وہ ہے جس نے سارے گھوڑے آگے لگارکھے ہیں) .

ممکن ہے میاں صاحب شدیدڈپریشن کا توڑ کرتے ہوئے لطیفے بازی اور قہقہوں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہوں کہ’’ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے‘‘ ۔ بھارتی فلم ’’منا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ میں ڈاکٹر استھانہ کاکردار بومن ایرانی نے نبھایاتھا۔شدید غصے اور ڈپریشن کی صورت میں ڈاکٹر استھانہ قہقہوں سے اپنے آپ کو نارمل رکھنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں مگر منا بھائی (سنجے دت) اپنی سرگرمیوں سے ان کا بلڈ پریشر ابنارمل کرتارہتا ہے۔احتساب عدالت میں پیشی بھگتنے کے بعد میاں نوازشریف نے کہاکہ میں عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم منتخب ہوا اور عدالت نے مجھے نااہل قرار دیا ۔دوسرے فیصلے سے نون لیگ کی سربراہی چھینی گئی اب میرے پاس میرا نام ہے ’محمد نوازشریف‘ وہ بھی چھین لیں ۔

ممکن ہے ان کو اس ضمن میں بھی آئین کی شق مل جائے۔ جسٹس ثاقب نثار نے جو فیصلہ تحریر کیااس کے مطابق 28جولائی 2017سے نوازشریف کے تمام فیصلے کالعدم قرار پاگئے۔اس ضمن میں شاہد خاقان عباسی کا وزیر اعظم منتخب ہونا اورلودھراں سے اقبال شاہ کی جیت تیر بہ ہدف موضوع بحث ہے جبکہ سینیٹ کے الیکشن کے لئے نوازشریف کے دستخط سے نون لیگ کے نامزد نمائندے اپنی سیاسی پہچان کھوبیٹھے ہیں، اب وہ صرف آزاد حیثیت سے انتخاب میں شریک ہوں گے۔

وطن عزیز کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو یہاں ہمیشہ مصنوعی طریقوں سے اکھاڑ پچھاڑ کی جاتی رہی ہے ۔اس کی سب سے بڑی مثال بنگالیوں کا وہ استحصال ہے جس کا نتیجہ عام انتخابات اور بغاوت کے بعد بنگلہ دیش نکلا تھا۔خود نون لیگ کے روح رواں شریف برادران اور ان کی سیاسی جماعت نون لیگ کو بھی اپنی شناخت کامسئلہ درپیش ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اس وقت نون لیگ ملک کی مقبول ترین جماعت ہے جس کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیاجارہا۔ اسی کی دہائی کے آغازمیں جنرل ضیاالحق اینڈکمپنی نے اسی فارمولے کے تحت انہیں مینوفیکچر کیاتھا۔

بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعدپیپلزپارٹی کی مقبولیت ایک مرتبہ پھر بلندیوں پر تھی تب اس کارستہ روکنے کے لئے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کافراڈ فارمولامیدان میں لایاگیا۔شریف برادران اور چوہدری برادران سمیت ہمارے بہت سے ہیروز اسی دور میں متعارف کرائے گئے تھے۔ چوہدری شجاعت کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ کے الیکشن نون لیگ کے بغیر ہی کرادیں۔شیخ رشید تو یہ فرمارہے ہیںکہ چونکہ شاہد خاقان عباسی کو بھی نوازشیریف نے نامزد کیاتھا اسلئے انہیں بھی وزارت عظمیٰ سے نااہل قراردیا جائے۔ ان کے نزدیک قومی اسمبلی کے جن ممبران نے عباسی کو وزیر اعظم منتخب کرنے کیلئے ووٹ کاسٹ کئے ان کی کوئی آئینی حیثیت نہیں؟

اس وقت چوہدری شجاعت اور شیخ رشید سمیت دیگر سیاسی رہنما عدالتی فیصلوں کو تاریخی قرار دے رہے ہیں۔اس تاریخی موقع پر مجھے وہ ’’تاریکی ‘‘موقع بھی یاد آگیا۔12مئی 2007کے دن جب کراچی میں 54شہر یوں کو سرعام قتل کردیا گیاتھااسی رات اسلام آباد پریڈ گرائونڈ میں جنرل مشرف نے مکالہرایاتھا۔اس سے قبل شیخ رشید نے صدر مشر ف کے خلاف متوقع عدالتی فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہاتھاکہ بدترین فیصلہ بھی آپ (مشرف) کا کچھ نہیں بگاڑسکے گا۔ چوہدری پرویز الہٰی نے اسی جلسے میں مذکورہ متوقع عدالتی فیصلے کے پیش نظر مشرف کو دس مرتبہ وردی میں قبول کرنے کانعرہ بلند کیاتھا۔

میاں صاحب اور مریم بی بی بھی یہی کہہ رہے ہیںکہ ہمارے ہاں آمروں اور آئین شکنوں کو کٹہرے میں نہیں لایاجاتا۔کاش آمروں کے ساتھ بھی کوئی عدل وانصاف کرسکے۔ اس بابت یہی کہاجاسکتا ہے کہ ہنوز دلی دور است ۔ 70سالہ تاریخ میں 17وزرائے اعظم فارغ کئے گئے۔منتخب وزرائے اعظم جلاوطن ہوئے ،پھانسیاں بھی ہوئیں اور سرعام قتل بھی کئے گئے۔ لیکن قابل ذکر امریہ بھی ہے کہ معین قریشی اور شوکت عزیز ڈیزائن کے پرائم منسٹرز جہاں سے آئے تھے وہاں خیر وعافیت سے روانہ کئے گئے۔

ذاتی طور پر میاں نوازشریف کا سیاسی پرستار نہیں ہوں ۔نہ ہی میاں صاحب کو ہوگیوشاویز جیسا کوئی انقلابی لیڈر خیال کرتاہوں۔لیکن یہ سچ ہے کہ میاں نوازشریف ایک مقبول لیڈر ہیں اور عوام ان کی سیاسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔میاں نوازشریف کو ایک ناقابل تسخیر قائد بنانے میں ہمارے پری پیکروں کا ہاتھ ہے ۔اب جب میاں صاحب ایک مقبول لیڈر کی صورت اختیار کرچکے ہیںتو انہیں ان کی تمام تر پالیسیوں کے ساتھ حکومت کرنے کا اختیار دینا چاہئے۔یقیناًکوئی بھی آئین اور قانون سے بالاتر نہیں ہوتا ،لیکن اس ضمن میں منتخب وزیر اعظم اور ڈکٹیٹر کے ساتھ امتیازی سلوک بھی دکھائی نہیں دیناچاہیے! لیکن حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور جنرل ریٹائرڈ مشرف دبئی میں طائوس ورباب کی محافل سجارہے ہیں۔

اگرچہ مشرف کی مالی استطاعت نواز شریف جیسی نہیں لیکن وہ بھی کسی سے کم نہیں۔ پاکستان سے دبئی جانے والی فلائٹس میںگلوکار اور گلوکارائیںاب بھی مشرف صاحب کے ہاں اپنی آواز کا جادو جگاتی ہیں۔ایک مرتبہ میں نے مشرف صاحب کے حوالے سے لکھ دیاتھاکہ وہ ڈانس کرتے ہوئے سرپر رکھا گلاس گرنے نہیں دیتے۔اس پر میرے دوست فواد چوہدری جو ان دنوں پی ٹی آئی کے دھواں دار ترجمان ہیں انہوں نے شکوہ کیاتھا۔فواد چوہدری ان دنوں مشرف کے ترجمان ہواکرتے تھے۔

تجزیہ کار میاں نوازشریف کے ’’گھوڑا لطیفہ ‘‘ کی سیاسی تشریح کررہے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور کی بات ہے ہمارے بیلی اور بھنگڑا کنگ دلیر مہدی نے میرے مرحوم دوست ببوبرال اور برادرم سہیل احمد (عزیزی ) کے ہمراہ مجھے بھی دبئی دعوت پر بلایا۔ہم تینوں پانچ دن کیلئے دبئی پہنچے تو دلیر مہدی نے سکھ اسٹائل میں ہماری بھر پور تواضع کی۔ایک دن وہ ہمیں دبئی کے مشہور شاپنگ سینٹر برجمان لے گیا۔دلیر مہدی نے ہم تینوں کی انگلیوں میں ایک ایک انگوٹھی پہناتے ہوئے کہاکہ ’’ایہہ میری نشانی ہردم تہاڈے نال رووے گی‘‘ (یہ میری نشانی ہردم آپ کے ساتھ رہے گی‘‘۔دلیر مہدی نے بتایاکہ انگوٹھی میں جو پتھر جڑا گیاہے وہ لاجورد ہے جس کی تاثیر عزت اور شہرت کے ساتھ ساتھ احترام ہے۔

اس انگوٹھی کو پہن کر آپ جہاں جائیں گے آپ کو انتہائی عزت ملے گی۔

دبئی سے لوٹا تو پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث بیوی کووقت نہ دے پایا۔ایک صبح بیوی جھگڑتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میری زندگی کا بیشتر وقت ڈوموں اور میراثیوں میں گزرتاہے جس کے باعث وہ بری طرح نظر انداز ہورہی ہے ۔اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیاہے لہٰذا میں اپنا گھر سنبھالوں وہ احتجاجاََ گجرانوالہ اپنے میکے جارہی ہے۔عین اسی وقت دلیر مہدی کا فون آیا تواس نے اپنے مخصوص اندازمیں پوچھا بھاجی !کی ہورہیا اے( بھائی جان کیاہورہاہے ؟)میں نے اسے بتایا جب سے لاجورد پہنا ہے عزت کی بجائے بے عزتی ہورہی ہے۔اس نے حیرت سے پوچھا بے عزتی کون کررہا ہے؟میں نے جواب دیا تمہاری بھابی۔ دلیرمہدی بھی میاں نوازشریف کی طرح بڑا حاضر جواب ہے وہ فوراََصورت حال بھانپ گیا اس نے مجھ سے کہا۔۔بھاجی ! ابھی آ پ نے لاجورد پہنا ہے اور آپ کی بے عزتی ہورہی ہے ۔ ذراسوچیں اگر لاجورد نہ پہنا ہو تو پھر آپ کے ساتھ کیاہو؟

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).