پاک فوج کے دستے اور سعودی عرب


پچھلے دنوں پاک فوج کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام نشر کیا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: ’’پاکستان سعودی عرب دو طرفہ سلامتی تعاون کے تسلسل میں پاک فوج کا دستہ تربیت اور مشاورتی مشن پر سعودی عرب بھجوایا جا رہا ہے۔‘‘ آئی ایس پی آر کے مطابق ’’پاک فوج کا یہ دستہ اور پہلے سے موجود پاک فوج کے دستے سعودی عرب سے باہر تعینات نہیں ہوں گے۔ یہ پاکستان کے خلیج تعاون تنظیم (جی سی سی) اور علاقائی ممالک کے ساتھ دو طرفہ سلامتی کے شعبے میں تعاون کا حصہ ہے۔‘‘ اس پیغام نے ملک کے باشعور طبقے کو سوالات اُٹھانے پر مجبور کر دیا اور یہ پیغام ہر سطح پر بحث و مباحثے کی وجہ بنا۔

پاک فوج کی طرف سے سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے پیغام میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ آیا فوجی دستے راحیل شریف کی سربراہی میں قائم کردہ فوجی اتحاد کے لیے بھجوائے جا رہے ہیں یا پھر ان کا بھجوایا جانا محض 1982 میں پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کا حصہ ہے۔ یاد رہے کہ 1982 کے پروٹوکول میں یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی فوجی سعودی فوج کو مہارت اور قابلیت سکھانے جائیں گے کیونکہ پاک فوج کو پہاڑوں پر لڑائی کی خصوصی مہارت حاصل ہے۔

چند سال قبل سعودی عرب نے یمن پر حملے سے پہلے پاکستان سے اپنی فوج بھیجنے کی درخواست کی تھی جس کو پارلیمنٹ کی ایک متفقہ قرارداد پیش ہونے کے بعد مسترد کر دیا گیا تھا۔ جبکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط دفاعی تعلقات ہیں اور پاکستان کا نام 41 ممالک پر مشتمل اس اتحاد میں شامل ہے جو سعودی عرب نے اسلامی شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے قائم کیا ہے۔ اس اسلامی اتحاد کی مشترکہ فوج کی سربراہی بھی پاکستان فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو سونپ دی گئی تھی۔

حوثی باغیوں کے ساتھ جاری جنگ نے یمن کو بری طرح متاثر کیا اور یمنی صدر علی عبداللہ صالح کو پچھلے سال دسمبر میں قتل کر دیا گیا۔ علی عبداللہ صالح نے ہی حوثی باغیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے سعودی عرب سے فوجی مدد طلب کی تھی۔ سعودی عرب اور عرب امارات کے اس جنگ میں شامل ہونے کے باوجود یمن میں جاری یہ جنگ تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے۔ ابتدا میں تو پاکستان نے ملک میں پہلے سے موجود فرقہ وارانہ فسادات کے پیشِ نظر سعودی عرب میں اپنی فوج بھجوانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ لیکن پھر سعودی عرب اور عرب امارات کے دباؤ اور بات چیت کے بعد سعودی عرب میں موجود مقدس مقامات کی حفاظت کے پیشِ نظر فوج بھجوانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔

سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سعودی فوجی اتحاد کا سربراہ بنائے جانے پر بھی پاکستان میں سخت تنقید کی گئی۔ اور وضاحت طلب کی گئی کہ آیا یہ فیصلہ حکومتی سطح پر ہوا ہے یا راحیل شریف کی ذاتی حیثیت میں۔ اس کی قانونی حیثیت پر بڑی شرح و بست سے گفتگو کی گئی۔ راحیل شریف کے اسلامی عسکری اتحاد کی فوج کا سربراہ بنائے جانے اور پاک فوج کے دستے سعودی عرب بھجوانے پر ملکی سطح کے علاوہ دیگر کئی ممالک کی طرف سے بھی مخالفت کی گئی۔ ایران کی طرف سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔

سعودی عرب میں فوج بھجوانے کے معاملے کو پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں بھی اُٹھایا کہ فوج بھجوانے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا اور جبکہ اس معاملے پر پارلیمنٹ میں پہلے ہی غیرجانبداری اختیار کرنے پر متفقہ فیصلہ ہو چکا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ سعودی عرب بھجوائی جانے والی فوج کی تعداد ایک ڈویژن سے کم رکھی جائے کیونکہ یہ بات سعودی سفیر کی آرمی چیف سے ملاقات میں طے ہو چکی ہے۔

چیئرمین سینیٹ نے وزیرِ دفاع کو سعودی عرب فوجی دستہ بھجوانے پر طلب کر لیا۔ وزیرِ دفاع خرم دستگیر نے واضح کیا کہ سعودی عرب میں پاکستانی فوجی دستہ بھیجنے کا مقصد یمن جنگ میں الجھنا ہرگز نہیں، بلکہ صرف سعودی سکیورٹی اہلکاروں کو تربیت دینا ہے۔ سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیرِ دفاع نے کہا کہ اس وقت 1600 پاکستان فوجی سعودی عرب میں تعینات ہیں۔ وزیراعظم نے تربیت اور مشاورت کے لیے مزید ایک ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دی ہے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے خرم دستگیر کے جواب کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے پوچھا کہ بتایا جائے پاکستانی فوجیوں کو کہاں تعینات کیا جائے گا اور وہ وہاں کیا کریں گے؟ جس پر وزیرِ دفاع نے وضاحت کی کہ دفاعی تعاون کے معاہدے کے تحت اور پاک فوج کی حفاظت کے پیشِ نظر تعیناتی کا مقام بتانے سے وہ قاصر ہیں۔ جبکہ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اس کے لیے وہ بند کمرہ اجلاس طلب کر سکتے ہیں لیکن وزیرِ دفاع نے اصرار کیا کہ یہ معلومات دینا اُن کے لیے مشکل ہوگا۔ اور صرف اتنا کہا کہ حکومت نے 2015ء کی پارلیمنٹ کی قرار داد سے تجاوز نہیں کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان یمن کے معاملے میں غیرجانبدار رہے گا۔

علاوہ ازیں وزیر دفاع خرم دستگیر نے بھی ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دستے بھیجنے کا فیصلہ کچھ عرصہ پہلے ہوا تھا، میں نے اس سلسلے میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا جبکہ سعودی عرب کے نائب و زیرِ دفاع بھی اس سلسلے میں پاکستان تشریف لائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے کافی عرصے سے بات چیت جاری تھی اور بالآخر مشاورت اور تربیتی مشن کے لیے مزید فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ خرم دستگیر نے وضاحت کی کہ پاکستانی فوجیوں کو سعودی عرب کے زمینی دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

اصل شکوک و شبہات اس بات سے جنم لے رہے ہیں کہ فوجی دستے بھجوانے کا اعلان آئی ایس پی آر کی طرف سے کیوں کیا جاتا ہے جبکہ یہ معاملہ خالصتا سیاسی نوعیت کا ہے لہٰذا وزارتِ خارجہ یا پھر وزارتِ دفاع کو اس کا اعلان کرنا چاہیے کیونکہ پروٹوکول کا معاملہ وزارتِ دفاع کے تحت آتا ہے۔ واضح رہے کہ پروٹوکول کے تحت پاک فوج کے دستے سعودی حکومت اور حکمرانوں کو تحفظ کے لیے بھیجے جائیں گے نہ کہ سعودی عرب میں موجود مذہبی مقامات کی حفاظت کے لیے جس کے بارے میں عوام کو اکثر و بیشتر گمراہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروٹوکول کے مندرجات کو عوامی سطح پر کبھی واضح نہیں کیا گیا۔ یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ تربیتی اور مشاورتی مقاصد کے لیے پاک فوج کے دستے دیگر کئی ممالک بھی بھجوائے جاتے رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں محض سعودی عرب کو خوش کرنے کے لیے ایران، ترکی اور دیگر ممالک سے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئیں۔

سید حسن رضا نقوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید حسن رضا نقوی

‎حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں، سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں، آج کل بطور پروڈیوسر ایک نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں

syed-hassan-raza-naqvi has 10 posts and counting.See all posts by syed-hassan-raza-naqvi