شوہر کا تشدد اور حضرت مولانا کا روحانی علاج


ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ نہیں شاید بہت دفعہ کا ذ کر ہے مگر اس نوبت تک کہانی پہنچ جائے گی۔ یہ ایک ہی دفعہ ہوا۔ صاحب بڑے ہتھ چھوڑ تھے۔ اُن کا فون بج رہا تھا میں نے ہاتھوں میں اٹھایا ہی تھا کہ کال کٹ گئی۔ سکرین پر نمبرجگمگا رہا تھا۔ پوچھا کس کی کال تھی میں بولی کام والی ماسی کی۔ مگر صاحب اس نے میرے نمبر پر کا ل کیوں نہیں کی۔ آپ کو کیوں کی۔ بس اتنا پوچھنا تھا کہ انہیں تو غضب کا غصہ آگیا۔ یہ بات بعد میں پتا چلی کہ یہ غصہ چور کی داڑی میں تنکے والا غصہ تھا۔ میں بھی کچھ کم تو نہ تھی۔ پہلے صفائی پیش کی کہ آپ کا فون اکثر میں اٹینڈ کرلیتی ہوں اور ماسی کا ہی فون ہے تو اتنا غصہ کس لئے۔ مگر وہ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور میں بھی بلا وجہ کی جھنجھلاہٹ میں تھی۔ اس بے عزتی پر مجھے تاﺅ چڑھا اور میں نے انہیں اپنی حدود میں رہنے کے لئے کہا۔ یعنی کہہ دیا آبیل مجھے مار۔ اب ان کی حدود انہوں نے میری زبانی گالی گلوچ کے ساتھ جسمانی تششد کی مدد سے واضح کیں۔ مجھ سے میرا فون اور پرس چھین کر گھر سے باہر نکال دیا۔ میرے میکے والوں کا گھر شہر سے باہر ایک گاﺅں میں تھا اور ہم ملتان کے وسط میں آباد ہوچکے تھے۔ خوفناک چوٹوں کے باعث مجھے ڈاکٹر کی اشد ضرورت تھی۔ ہمسایوں میں صرف ایک گھر آباد تھا جس پر تختی لگی ہوئی تھی گوشہ رحمت مگر وہاں سے بھی روزانہ ہی رحم کی اپیلوں کی صدا آتی ہیں۔ سو میں نے سوچا چار سڑکیں مڑ کر ایک بہت بڑا دینی دارالعلوم ہے۔ وہاں مدد کے لئے جاتی ہوں۔ فون نمبر کسی کا بھی یاد نہیں تھا کیونکہ ناموں سے نمبر محفوظ کئے تھے۔ اب یہ الزام نہ لگائیے گا کہ میں نے کسی رشتے دار کو کال کیوں نہیں کی۔ بخدا میرے پاس اس وقت بھی دو سِمیں ہیں۔ اور اُن میں سے ایک کا نمبر مجھے یاد بھی نہیں۔

بہرحال میں گول باغ کے قریب واقع مسجد جامع قاسم العلوم پہنچ گئی۔ وہاں میری حالت دیکھ کر گارڈ نے کہا کہ آپ انتظار گاہ میں بیٹھ جائیں۔ میں نے کہا مجھے یہاں کے بڑے مولانا سے ملنا ہے۔ مجھے مدد چاہئے۔ بڑے مولانا چھوٹے مولاناﺅں کو درس دے رہے تھے۔ مجھے فوراً کلاس میں بلا لیا۔ کیا نورانی چہرے والے بڑے مولانا جوکہ پرنسپل بھی تھے چند بزرگوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ میں نے سب کے سامنے رحل پر قرآن کھلے دیکھے تھے۔ میں نے پرنسپل صاحب کو کہا کہ میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہے۔ اﷲ کے دربار سے زیادہ کوئی محفوظ مقام نہیں اور آپ سے بہتر اس وقت کوئی سربراہ نہیں۔

مجھے کسی طرح رابطہ کرنا ہے گھر والوں سے اور ڈاکٹر بھی چاہئے۔ میں آپ کو پتہ بتا دیتی ہوں شوہر کا۔ اس کا نمبر بھی دیتی ہوں جو یاد تھا۔ اور امی کے گھر کا بھی لکھ لیں پتہ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں اب بے ہوش ہوئی کہ ہوئی۔ مجھے گھر والوں کی اور ڈاکٹر کی ضرورت تھی۔ مسئلہ حل کرنا تھا کہ مجھے محفوظ جگہ سے اصل ٹھکانے تک جانا ہے۔ میری سب بکواس سننے کے بعد مولانا حضرت پرنسپل صاحب بولے، بی بی آپ پر جادو ہوا ہے۔ کس نوعیت کا ہے اور کس نے کیا ہے۔ یہ پتا چلانا پڑے گا۔ میں بولی حضرت میرے ہونٹوں کے کناروں سے خون ٹپک رہا ہے۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا آرہا ہے۔ جسمانی چوٹوں سے بے حال ہوں۔ میرے گھر والوں سے رابطہ کریں۔ میرے شوہر سے امی کا نمبر لیں، انہیں بلائیں۔ مگر وہ صاحب بضد تھے کہ بی بی پہلے جادو کا پتہ کرنا پڑے گا اور اس کے لئے میں جاﺅں اور اُن کے دفتر میں جا کر اپنی قمیض اتاردوں۔ اس کلاس کے اوور ہونے کے بعد وہ قمیض کے ذریعے میرے اوپر ہونے والے عمل کو پوری طرح جان جائیں گے اور میرا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

اب مجھے بتائیں کہ اس سوال گندم اور جواب چنا مین کیا رمز پنہاں تھی۔ میں پاگل تھی یا وہ مولانا۔ میں اتنے حواسوں میں تو تھی کہ جان جاﺅں کہ میں آسمان سے گر کھجور میں اٹک چکی ہوں۔ میں نے اپنا جوش خطابت استعمال میں لاتے ہوئے کہا کہ یہ جادو ہم بعد میں ختم کر لیں گے۔ میرے گھر پہنچنے کے بعد میں آپ کو اپنی قیمض دے جاﺅں گی۔ مگر ابھی مجھے میرے گھر جانا ہے یا ہسپتال۔ پیسے چاہیئں، ٹرانسپورٹ چاہئے۔ آپ یہی مدد فرما دیں، بہت ہوگا اور آپ یہ سب نہیں کرتے تو مطلب صاف ہے کہ آپ مجھے کھسکی ہوئی عورت سمجھ کر استعمال کرنا چارہے ہےں۔ اور اگر میرے ساتھ کوئی برا ہوا تو میں چھوڑوں گی نہیں۔ میں جا رہی ہوں۔ مولانا بولے، نہیں جا پاﺅ گی۔ موقع پر موجود مولویں کا قہقہہ ابھی تک کانوں مین گونج رہا ہے۔ اور ان کی داڑھیاں اور پر نور چہرے ابھی بھی میرے آنکھوں میں بسے ہیں۔ میں ویسے ہی شوہر پر غصہ تھی اوپر سے مزید جلال میں آچکی تھی۔ میں نے کھڑے ہوکر کہا کہ تم سب پر خدا کی لعنت ہوگی۔ یہ بازار بند کردو۔ تم سب دو نمبر ہو اور زور زور سے چیخیں مارنے لگی تاکہ طُلبا اکٹھے ہو جائیں اور باقی انتظامیہ بھی اِن لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ میں بس اپنا راستہ بناتی جلدی سے نکل گئی۔

پتا نہیں اتنے سب کے بعد بھی میرے حواس کیسے بحال رہے۔ دو قدم کے فاصلے پر مجھے ایک کلینک کا بورڈ نظر آیا۔ میں اس میں گھس گئی۔ اب مجھے بالکل ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ کسی سے بھی۔ میرے حالت دیکھ کر نرس ڈاکٹر کو بلا لائی۔ میں نے مدرسے والی بات کے سوا سب بتایا۔ اس ڈاکٹر نے کہا کہ یہ پولیس کیس ہے۔ میں خود اور ایک نرس آپ کے ساتھ چلتے ہیں نشتر ہسپتال۔ 1122 میں یعنی ایک عام آدمی میرا مسئلہ حل کرنے کی طرف بڑ ھ رہا تھا۔ مجھے اس نے ایمرجنسی میں داخل کیا۔ پولیس کیس بنا۔ گھر والوں کو بلا یا گیا۔ کیونکہ پتہ ملنے کے بعد ایک آدمی بذات خود وہاں جاکر بھائی کو بلا لایا تھا۔ ڈاکٹر پورا وقت اپنی نرس کے ساتھ وہیں موجود رہا کوئی فیس وصول نہ کی اور پولیس والوں نے میرے بھائی سے کہا کہ معاملہ ختم کر دیتے ہیں۔ فریقین صلح کر لیں۔ تھانے میں نہ جائیں۔ گھر میں بات رکھیں کیونکہ عزت کا معاملہ ہے۔ اس بات سے میں متفق نہ تھی مگر دونوں خاندانوں کے ذمہ دار افراد نے معاملہ پولیس کے حوالے نہ ہونے دیا۔ میں تندرست ہونے کے بعد پھر اپنے شوہر کے گھر آگئی۔ منتیں اور معافیاں معانی کھو دینے کے بعد بھی کتنی با معنی رہتی ہیں۔ یہ واقعہ کو ئی 2010 کا ہے مگر میں ابھی بھی دینی علماءکی عزت کرتی ہوں۔ سب ایک سے نہیں ہوتے۔

دوسال ہوئے ایک اخبار میں مشتبہ سرگرمیاں کرنے والے مدارس اور جامعا ت میں اس مدرسے کا نام بھی دیکھا جہاں مضروب عورت کی قمیض اتروا کو جادو کا علاج کیا جانا تھا۔ ایک بات میں یہاں ساحر کے ایک شعر کی تحریف کی صورت میں بیان کرنا چاہوں گی:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہی ہوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).