پاکستان کی فکری اساس اور ہمارا طرزِ احساس


اورنگ زیب کی وفات سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ تک برصغیر کے مسلمان مسلسل زوال پذیر رہے ہیں۔ ان کی اجتماعی ہستی ایک کے بعد ایک بحران کے بھنور میں چکراتی چلی آئی ہے۔ان طویل صدیوں کے دوران مسلمان دانشور اپنی اجتماعی شخصیت کے پارہ پارہ ہو کر منتشر ہو جانے کے خطرے سے دوچار رہا ہے۔ ایسے میں اجتماعی ہستی کی بقا اور نشوونما کی جدوجہد میں ثابت قدم ادیب آتشِ رفتہ کے سراغ اور کھوئے ہوﺅں کی جستجو میں سرگرداں رہے ہیں۔ گئے زمانوں کی راکھ میں سے چنگاری کی تلاش اور تاریک مستقبل کو منور کرنے کی خاطر اس چنگاری کو شعلہ ¿ جواّلہ میں بدلنے کا عمل، ہمارے فکری رہنماﺅں کا سب سے بڑا تہذیبی مسلک رہا ہے۔ زوال اور غلامی کی طویل صدیوں کے دوران ہمارے عظیم ادیب، قوم کی دیکھنے والی آنکھ، دھڑکنے والا دل اور خواب دیکھنے والا دماغ بن کر زندہ رہے ہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے ہم نے جمود اور زوال کے اسباب کا سیر حاصل تجزیہ کر لیا ہے اور اب اس زوال کو عروج میں بدلنے میں سرگرمِ عمل ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال انسان کی تخلیقی، تسخیری اور تعمیری قوتوں کے سب سے بڑے پیغام بر بن کر ہمیں اُن زنجیروں کو توڑنے کا درس دے رہے تھے جو غلامی کی تاریک صدیوں میں ہم نے اپنے اجتماعی وجود کے اِرد گرد لپیٹ لی تھیں۔ اقبال نے اپنی انقلابی فکر کو ٹھوس سیاسی اور تہذیب نصب العین میں ڈھالا تو ہندی مسلمان قیام پاکستان کے لیے سربکف ہو گئے:

”برصغیر میں ایک جداگانہ اسلامی ریاست، ہندوستان کے ساتھ ساتھ اسلام کے لیے بھی انتہائی فائدہ بخش ہے۔ ہندوستان کے لیے یوں کہ اندرونی توازن اقتدار کے باعث تحفظ اور امن پیدا ہوگا، اور اسلام کے لیے یوں کہ اُسے موقع ملے گا کہ عرب ملوکیت کی چھاپ سے نجات پائے اور اپنے قانون، تعلیم اور کلچر کو تحریک دے کرا نہیںاپنی اصل روح اور روحِ عصر سے ہم آہنگ کر دے۔“              (اقبال۔ تیس کا خطبہ الہ آباد(

جس فکر نے نظریہ پاکستان کو جنم دیا اور پروان چڑھایا وہ عہدِ حاضر کی روشن خیال اور ترقی پسند فکر تھی مگر بدقسمتی سے بنیاسامراج اور برطانوی استبداد کے قدم بہ قدم وہ مسلمان قیادت بھی قیامِ پاکستان کی مخالفت میں سرگرم عمل ہو گئی جو عرب امپیریئلزم کی چھاپ ہی کو اسلام قرار دیتی تھی۔ زوال زدہ تصورات پر جمے اور ڈٹے ہوئے علماءاقبال کی سیاسی بصیرت کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ یہ لوگ انسان دوستی کے مغربی تصورات کے مقلّد ادیبوں کی طرح مسلمانوں کے جداگانہ تہذیبی وجود اور نتیجةً قیامِ پاکستان کے مخالف بن کر بیٹھے۔ مسلمان عوام مسلم قومیت پر اصرار کر رہے تھے اور رجعت پسند علماءاور ترقی پسند ادیب متحدہ ہندی قومیت کے علمبردار تھے۔ اقبال کی بصیرت اور مسلمان عوام کی انقلابی جدوجہد کی بدولت مسلم قومیت کا تصور متحدہ ہندی قومیت کے تصور پر غالب آیا اور پاکستان قائم ہو گیا۔ جمود پسند علماءاور ترقی پسند ادیب پاکستان ہجرت کر آئے مگر انہوں نے متحدہ ہندی قومیت کے تصور سے مسلم قومیت کے تصوّر کی طرف ہجرت نہ کی۔مسلم قومیت کا تصوّر ہی پاکستانی قومیت کی اساس ہے اس لیے ان لوگوں کی فکری اور عملی جدوجہد پاکستانی قومیت کی تعمیر میں سب سے بڑی رُکاوٹ بن گئی۔ المیہ یہ ہے کہ جو اس تصوّر کے مخالف تھے وہ تو مخالف رہے مگر جو اس کے علمبردار تھے وہ بھی قائداعظم کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ اس کی تعمیر سے غافل ہو کر نفسی نفسی پکارنے لگے۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان کی فکری اساس کے مخالف دانش وروں کا آفاقیت کا وہ تصوّر خوب پھلا پھولا جو ہمارے قومی وجود کی نفی سے پیدا ہوتا ہے۔یہ تصوّر اقبال کے تصورِ آفاقیت اور پاکستان کی بقا سے جنگ آزما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آقا و غلام اور رنگ و نسل کے امتیازات سے ماورا وہ جہانِ نو پیدا نہ ہو سکا جس کی فکری اساس تو جوں کی توں رہے مگر جس کی زندگی ہر لحظہ ایک نئے انقلاب کی طلب گارہو۔

نظریہ پاکستان کی فکری اساس سے خائف سامراجی طاقتوں کے لیے یہ صورتِ حال بے حد سازگار ہے اور وہ گزشتہ ربع صدی سے ہماری آزادی کی گھات میں ہیں۔ اپنے زوال زدہ تہذیبی سانچوں اور بے معنی فنی نظریات کی ترسیل سے یہ طاقتیں ہمارے قومی اور تہذیبی وجود کو مٹانے کی مساعی میں سرگرم ہیں۔ اس کتاب میں شامل مضامین جس زمانے میں (1962ء سے 1973ء تک) وقتاً فوقتاً ضبطِ تحریر میں آتے رہے وہ زمانہ ہماری تہذیبی اور فنی زندگی میں سامراج اور نوآبادیاتی مقاصد کے فروغ بے مثال کا منظر پیش کرتا ہے۔ان ناپاک مقاصد کے پنپنے سے ہماری تہذیبی زندگی جمود اور تعفن کا شکار ہے اور یہ جمود اور تعفن کسی صحت مند ادبی مسلک کی نشوونما میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

میں اُردو ادب کو ہندی مسلمانوں کی تہذیب کا خوبصورت ترین مظہر سمجھتا ہوں اور اپنی قومی انا اور عصری زندگی کے حوالے سے ادب کی آفاقی اقدار تک رسائی میں کوشاں رہا ہوں، اس لیے ان مضامین میں ہمارے قومی مسائل اور ماضی ¿ قریب کی ادبی و فکری تحریکیں بار بار زیرِ بحث آئیں۔ نئے ادب اور ترقی پسند ادب کی تحریکیں اپنا کام کر چکیں۔ وہ اب ہماری ادبی تاریخ کا حصہ ہیں مگر ان کے حوالے سے عظمت کا سفر طے کرنے والی شخصیات ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان میںسے چند شخصیات کے فکر و فن پر مضامین ادبی تنازعات کا باعث بنے۔میں خود کو ترقی پسند سمجھتا ہوںکہ ایک مسلمان اس کے علاوہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا، مگر ترقی پسندی پر ترقی پسند تحریک کی اجارہ داری تسلیم کرنے سے قاصر ہوں۔

میں اُس ترقی پسند روایت پر ایمان رکھتا ہوں جو ولی، میر، غالب، اقبال اور ندیم سے ہوتی ہوئی نئی نسل تک پہنچی ہے، جو ہماری اپنی ادبی اور تہذیبی روایت سے پُھوٹی ہے اور جس کے ناز پروردگان کی عالمگیریت قومی وجود کے اثبات سے مجروح نہیں ہوتی بلکہ منفرد رنگ و آہنت اخذ کرتی ہے۔ اس ترقی پسند روایت کے وارثوں کو ہم عصر ادبی اور تہذیبی صورتِ حال جو سوالات پیش کرتی ہے، یہ مضامین ان پرغور وفکر کی ایک کوشش ناتمام ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).