جنس پر بات ضروری ہے


ایوان بالا ہو یا زیریں۔ عوام ہو یا خواص۔ چھوٹے ہوں یا بڑے، ہیں سب کے سب انسان۔ اور انسانوں کی کچھ جسمانی ضروریات ہیں۔ اور ان ضروریات کو جائز اور احسن طریقوں سے پورا کرنا ہی صحیح اور قابل تحسین عمل ہے۔کچھ وقت پہلے شہر گوجرانوالہ کے ایک نو سالہ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کی خبر معلوم ہوئی۔ قیاس تو یہ بھی ہے کہ یہ کوئی نیا کیس نہیں ہے۔ لیکن کب یہ آخری کیس ہو گا؟

ایک عزیز نے میرے لائق ایک وقت طلب کام سونپا جسے پورا کرنے میں روزانہ پنجاب پبلک لائبریری جا تی رہی۔ لائبریری کے اخبار سیکشن میں 1977 سے 1970 تک کے اخبارات دیکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اخبارات کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ پھر زیادہ تر صفحات سرے سے ہی وجود نہیں رکھتے۔ جو ہیں ان میں یا تو علامہ اقبال کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے یا ضیاالحق صاحب کے اقدامات اور ان کی داد درج ہے۔ جو چھوٹی موٹی خبریں دیکھنے کو مل رہیں ان میں اگر 30 اخبار ہیں تو تیس میں سے اٹھائیس جنسی زیادتی کی خبریں ہیں۔ اور یہ خبریں دو سے تین جملوں پر مشتمل ہیں۔ جس میں victimکا نام اور والد کا نام حذف کیا گیا ہے ۔ البتہ تھانے کا اور علاقے کا نام موجود ہے۔ ان خبروں میں جنسی زیادتی کرنے والا یا تو گرفت میں نہیں آیا اور جو آیا ہے وہ یا تو محلے کا  xyz ہے یا کوئی رشتہ دار۔ تو یہ کہنا کہ پہلے جنسی زیادتیاں نہیں ہوتی تھیں اب ہو رہیں ۔ یہ تو سرے سے ہی ناقابل قبول ہے۔

عرض یہ ہے کہ ڈارک ویب سائیٹ کا کمال ہو تو سکتا ہے مگر یہ ویب سائیٹ تو اب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 1977ء میں سوائے کتابوں اور بلیک اینڈ وائیٹ ٹی وی کے کچھ بھی نہیں تھا۔ کلر ٹی وی اس وقت بڑے شہروں میں ہو گا چھوٹے شہروں میں تو نہیں تھا۔ اس وقت کے اشتہارات تو یہی بتاتے ہیں کہ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کی ڈیمانڈ تھی۔ انٹینا ہوا کرتا تھا اور پی ٹی وی پر میڈم نور جہاں کے گانے تھے یا دیگر پروگرام جنہیں آج ہم کلاسیک کہتے اور اس اچھے وقت کو یاد کرتے ہیں۔ تو پھر یہ زیادتیاں تب کیوں ہو رہی تھیں؟

ہمارے ہاں تب تو زیادتی کے واقعات پر بالکل بھی بات نہیں ہوتی تھی۔ ان واقعات کو دبایا جاتا تھا۔ اور یہ واقعات پولیس کی حد تک رہا کرتے تھے۔ 100میں سے کوئی ایک واقعہ عدالت کی زینت رہا ہو گا۔ پھر کیوں تب زیادتی کے واقعات رہے؟ اور زیادتی کے واقعات میں بچیاں بھی رہیں۔ لڑکیاں بھی رہیں اور عورتیں بھی۔ صرف یہی نہیں چھوٹے بچے تب بھی ان واقعات کا حصہ رہے۔ میرے خیال میں اب سوشل میڈیا کے آنے اور انٹرنیٹ تک رسائی نے صرف لوگوں کو دکھانا شروع کیا ہے۔ تا کہ وہ اس پر بات کریں۔ اور اپنی سوچ بدلنے کا یہ موقع بھی ہے۔ کہ ہم سیکھیں۔ یوگا کریں یا ورزشیں کریں۔ کچھ بھی مگر اپنے دماغ کو کنٹرول کرنا سیکھیں۔ اپنی فرسٹریشن کو بچوں اور کمزور وں پر نکالنے کی بجائے کسی تعمیری کام میں حصہ لیں۔

ہمیں اب جنس پر بات کر لینی چاہیے۔ بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں جنس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جب دل اور دماغ یہ کہیں کہ دال میں کالا ہے تو فوراً ماں یا باپ یا دونوں سے بات شیئر کی جائے۔ جب کوئی رشتہ دار یا محلہ دار غیر اخلاقی حرکت کرے تو ہمارے بچوں کو علم ہونا چاہیے کہ اخلاقیات کیا ہیں اور غیر اخلاقی حرکت میں کس طرح معاملہ دیکھنا اور سنبھالنا ہے۔ تا کہ بروقت جنسی زیادتیوں جیسے تلخ واقعات سے نپٹا جائے۔

ہمارے بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کی سمجھ ہونی چاہیے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کائنات میں پانچ قسم کے لوگ ہیں۔ عورت، مرد، خواجہ سرا، دو روحیں رکھنے والے لوگ اور نربان۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے سب کے سب انسان ہیں اور ان کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے۔ ہمارے ہاں کا مسئلہ یہ ہے کہ بچے نے کہا ہے پیٹ میں درد ہے فوراً سے ڈانٹا جاتا ہے کہ ڈرامہ نہ کر۔ میرے خیال میں پیٹ درد کی جڑ تک آج پہنچیں گے تو کل انہیں محفوظ بنا سکیں گے۔ اس کا ایک مثبت اثر یہ بھی ہو گا کہ یہی جنریشن بڑے ہو کر اب کی جنریشن سے قدرے مختلف، زیادہ سمجھدار اور معاملات کو جانچنے والی ہو گی۔ یہ نسل زیادہ وسیع النظر ہو گی۔

اس وقت جب کہ مسٹرایلن مسک مریخ پر کالونی بنانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں اور اس پر عمل شروع کر چکے ہیں۔ ایسے میں ہم یہ ہی نہیں سمجھ پا رہے کہ جنس کو کیسے سمجھنا ہے اور کیا بچوں کو سمجھانا ہے؟ جنس کی اخلاقیات کیا ہیں؟ جسمانی ضروریات کیا ہیں اور کو کیسے پورا کرنا ہے؟ کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کے لیے گول نہیں ہو سکتا۔ رہی بات محبت کی تو وہ ایسا بھی جذبہ نہیں کہ سب کی پہنچ کے باہر ہو۔ اور ایسا بھی نہیں کہ ہر جگہ منہ مارنے پر مجبور کرے۔ ہمارے ماں باپ ہمارے بہترین دوست ہیں۔ اور دوست کا فرض ہے کہ دوست کہ کام آئے۔ دوست اپنے دوست کے ساتھ ہر بات بڑی آسانی سے کر لیتا ہے۔ میں بھی اپنی دوست کے ساتھ ہر بات کر لیتی۔ بنا جھجھک کے۔ کیونکہ اعتماد ہے۔ وہی اعتماد جس کی والدین اور بچوں کے درمیان سنگین اور خطرناک حد تک کمی ہے۔اور یہ کمی میرے اپنے والدین کے بیچ بھی ہے۔ ہمارے والدین بڑے سخت طبیعت واقع ہوئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہم سے محبت کرتے ہیں۔ اور ہم سے محبت اور عزت چاہتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ کٹھور نہیں ہیں۔ لیکن انہیں سخت لہجے میں بات کرنی پڑتی ہے تا کہ ہم صحیح رہیں۔ لیکن ان کی جگہ اب ہم لے رہے ہیں، ہم والدین بن رہے ہیں اور ہمارے رویوں میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ اس کی اشد ضرورت ہے۔آج ہم اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں گے، اپنے بچوں کی جائز خواہشات کو اہمیت دیں گے اور ناجائز خواہش کواحسن طریقے سے رد کریں گے تو بہتر مستقبل کی جانب صحیح قدم اُٹھا سکیں گے۔

ہمارے ملک میں والدین کی کونسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔ جو انہیں بتا سکے کہ اس مسئلے کا حل کیسے اور کس طرح سے ہے۔ ماہرین نفسیات کی اب ہر شعبے میں ضرورت ہے۔ یہی وہ طریقے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے معاشرے کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں کم از کم ایسے دل سوز اور تلخ واقعات نہ ہوں۔جہاں ہیومن ٹریفکنگ نہ ہو۔ میں خواب دیکھتی ہوں ایسی جگہ کا میرے لوگ پھولوں سے محبت کرتے ہوں۔ مسکراتے ہوں، خٹک رقص کرتے ہوں اور بھنگڑا ڈالتے ہوں۔ ان کے چہروں پر خوشیاں جھلکتی ہوں۔ اور جہاں دکھ مل بانٹنے کے لیے ہوں۔ چھوٹی سی زندگی ہے مسکراتی رہے تو اچھا ہے۔ خاک ہیں، خاک ہو جانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).