ذکر ان بہاروں کا جب پھول کھلتے اور انسان ہنستے تھے


تب  یہ موسم آمد بہار کا موسم ہوتا ہوتا تھا اور نچلے متوسط گھرانوں کے لڑکپن کو جانے کن کن زاویوں سے یادگار بنا جاتا تھا۔ خود نمائی کے شوقین پیڑ پودے حسین کے ساتھ ذہین بھی ایسے کہ دسمبر/جنوری میں ٹھٹھرتے ننگے وجود کے ساتھ ، اندر ہی اندر، جشن بہاراں کا انتظام کرتے رہتے، اہتمام کرتے رہتے اور پھر وسط فروری میں، خود پہ گلرنگ شگوفے ٹانکنا  اور کسی الھٹر جیسے تانکنا جھانکنا شروع کر دیتے تھے ۔

اور پھر پُھول کِھلتے ۔۔ بظاہرغصیلی قدرت  ’رسیلی اور رنگیلی قدرت بن جاتی !

 وقت بھی کتنا ستم ظریف ہے کہ اٹھارہ بیس میں تھے تو اس موسم میں جُھولا باغوں میں جُھلاتے تھے،  چالیس میں پہنچے تو یہ جھولا کمرے میں جُھلاتے ہیں….

 بچہ پھر بھی روتا ہے…  اور وہ بچہ ۔۔۔ جو اندر سسکتا ہے، تڑپتا ہے، بلکتا ہے…. اول اول ایسے موسم میں یہ بچہ مچلتا تھا، پھسلتا تھا، پُھدکتا تھا،  پھڑکتا اور دھڑکتا تھا۔۔۔ اب تو محض جیون سہنا مانگتا ہے، زندہ رہنا مانگتا ہے۔ ویسے اوّل اوّل کی محبت ہو یا شرارت، بھولتی کہاں ہے؟ بہ زبان فرازؔ

اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر

بن پیے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں

”کچھا بنیان ’’ کا وہ من موجی دور کہ جب گرج برس باد و باراں میں،  ندی نالوں میں روانی کی اور طغیانی کی دعا کرتے تھے…. شِیلا کی جوانی کی دعا کرتے تھے. اب ادا اور وفا کے سیلانی بلکہ معانی تک ایسے بدلے کہ سیلابی موسم میں،  خدا خدا کرتے ہیں۔۔ بارانِ رحمت کی دعا کرتے ہیں….

بات یہ ہے کہ وقت اور بخت نے اندر کے بچپنے کو ٹھیک ٹھاک کچل ڈالا ہے مگر اب بھی جب پُھول کِھلتے ہیں اور پُھوار اڑتی ہے تو اندر کا بوڑھا بچہ مست ہو جاتا ہے…. بدمست ہو جاتا ہے۔ 23 مارچ کے بجائے 14اگست ہو جاتا ہے…. تب، ابر بہار کے چھینٹے Duty کو Beauty میں بدل دیتے ہیں۔

دفتر کی گیلی مگر خشک بالکونیوں سے بے قرار و فرار ہو کر، ان مہینوں میں، دامن کوہ کے مکینوں، عشق کمینوں اور عہد رفتہ کے حسینوں میں گم ہونے کا جی چاہتا ہے…. ’میں‘ کے بجائے ’تُم‘ ہونے کا جی چاہتا ہے….ٹُن ہونے کا جی چاہتا ہے….

بیٹھے بیٹھے سپنوں میں گُم ہو جاتا ہوں

اب میں اکثر ’میں‘ نہیں رہتا ’تُم‘ ہو جاتا ہوں

پنکھڑیوں سے ٹپکتی،  کم کم،  قطرہ قطرہ شبنم کے سرگم کے اس موسم میں۔۔ خواب، شباب اور سراب من میں ڈولتے ہیں، آنکھیں کھولتے ہیں اور کچھ ایسے بولتے ہیں

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گُل سے میرؔ

بُلبل پکاری دیکھ کے….صاحب! پرے پرے

ابرِ نیساں کی موتی بوندیں جب پودوں کے مُرجھا ئے چہروں کو دھیرے سے دھو ڈالتی ہیں تو ٹہنیاں عجب رنگ نکالتی ہیں اور پکارتی ہیں کہ جناب !   شباب سوگوار ہونے سے پہلے پہلے چمن میں سیر کو آتا ہے….

من گاتا ہے…. دل چاہتا ہے کہ شرٹ ٹراﺅزر میں بنا ہیلمٹ سکوٹر اڑایا جائے اور پیڑوں کے عطر بینر جُھنڈ میں جُھولتے جُھلاتے شام ہو جائے…. جیون یوں ہی تمام ہو جائے ۔

جب پُھول کھلتے ہیں…. پُھوار اُڑتی ہے تو خیال بھی اُڑتے ہیں کتابوں میں رکھے پھولوں کی طرح درختوں پہ لکھے وہ کچے پکے نام یاد آتے ہیں جو شاید اب بھی وہاں لکھے ہوئے ہوں…. وہ راز داں پیڑ کہ بقول کسے،  جن سے کم پیار کیا جاتا تھا اور جن کے نیچے زیادہ….

پُھولوں کی قدرتی نمائشیں …. جشن بہاراں کے مشاعرے اور بے یقیں آسمانوں پر اُڑتی رنگ برنگی پتنگیں…  دل ہوا بوکاٹا….

ایسے میں کیا کیا یاد نہیں آتا…. ڈاکیا سے وہ ذاتی تعلقات اور وہ خط کہ جو گھر کے بجائے محلے کی دکان پہ پہنچتے مگر اُن کی خوشبو نجانے سارے محلے میں کیسے پھیل جاتی…. لفافے، ٹکٹ اور کاغذ پر بسی وہ بے نام مہک جو مٹائے نہ مٹتی تھی…. چُھپائے نہ چُھپتی تھی…. ہاتھوں سے پھسل کر آنکھوں میں چُھپ جاتی، ہونٹوں پہ بس جاتی اور بالآخر ابا جی تک پہنچ جاتی ۔

اور ان خطوں میں وہ ٹیڑھے میڑھے حروف ان موتیوں کی طرح چمکتے جیسے بارش میں ’رم جھم…. جیسے کُھل جا سم سم….، جیسے پُھولوں پر شبنم…. جیسے جیون ہمدم…. جیسے مدھم سرگم…. جیسے دِل میں کوئی غم….

 جیسے سوگوار گِیسو…. جیسے بے قرار کُوکُو…. جیسے آنکھوں میں آنسو…. جیسے تُو ۔۔۔ جیسے تُو….!

بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصر

ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

جب پُھول کھلتے ہیں

 موسم بدلتا ہے تو تصویری البم نکلتا ہے…. کھلیانوں میں پیلی سرسوں، گیلی سرسوں پر پرانے کیمرے سے تصویر لیتے ہوئے پاﺅں کا وہ پھسلنا اور تصویر میں پورا پراندہ منہ پر اٹکا دیکھ کر جیون سے بھرپور قہقہے۔۔ عدمؔ گنگناتے۔۔۔۔۔

ملے جس وقت تُم مجھ کو یہ پوچھا میں نے یزداں سے

ہمیں جنت میں بھیجا ہے یا جنت سے نکالا ہے؟

فقیروں کے دوارے پر، عدم فقدان کس شے کا

پری وش ہیں، بہاریں ہیں، صراحی ہے، پیالا ہے

دھرتی کے بکھرے سونے پہ نقرئی قہقہے جوپن چکی کے باہر لگے جامن کے پیڑ پر بلبل کی چہکار سے زیادہ مدھر تھے…. اور وہ نالائق دوست جو اسی بلبل کے بچے کو بستے میں چُھپا لیتے اور سیاہی کی دوات دھو کر اس میں دانے بھر لیتے مگر ماسٹر صاحب کو سبق سناتے ہوئے…. بُلبل کا بچہ، کھاتا تھا کھچڑی، پیتا تھا پانی اک دن اکیلا، میں نے اڑایا …. اور وہ کم بخت شیدا بستہ کھول دیتا اور بھری جماعت میں بستے میں سے بلبل اڑ جاتا اور اپنے ہاتھوں کے طوطے….

تب چُھٹی کے بعد چھترول کا سارا غصہ شیدے کے مریل گدھے پر ڈبل سواری یا ون ویلنگ کر کے پورا کیا جاتا ۔ جانے کس نے کہا

اسیرِ پنجۂ عہدِ شباب کر کے مجھے

کہاں گیا میرا بچپن خراب کر کے مجھے؟

ارے! اندر کے بوڑھے بچے کی لال لگام تھامنا اب ضروری ہو گیا ہے۔

 بس ایک آخری چھلانگ!

اوائل مارچ میں لکی ایرانی سرکس اور میلہ چراغاں کا وہ موسم کہ جب اماں جان ضد کرنے پر بھی اٹھنی نہ دیتی تو ہم اس کی کنگھی، سرمہ دانی ا ور پراندہ چھپا دیتے اور ماں شام ڈھلے اپنی ’میک اپ کٹ‘ کی تلاش میں ناکامی پر غصے سے پَلو میں سے اٹّھنی نکال ڈالتی.. اُچھال ڈالتی…. اور فوراً اس اٹھنی میں سے ایک چونی کا حقدار کسی کچی دیوار کی اوٹ سے گُنگناتا….

 ”جلدی سے اک پیسہ دے دے تُو کنجوسی چھوڑ دے….“

اور ہم اپنی تُک بندی میں جواب آں غزل دیتے کہ

 ’جو وعدہ تھا وہ وعدہ ہے

 تیرا حصہ آدھا ہے!

اُف…. یہ دل کے کھاتہ دار حساب کتاب کے کیسے بنیے ہوتے ہیں ۔۔ پیار بُھول جاتے ہیں، ادھار نہیں بھولتے….

گلزار کی ’اجازت‘ میں بھی بچپن کا ایک ادھار بُوڑھی آشا ایسے مانگتی ہے۔

ایک دفعہ وہ یاد ہے تم کو

بن بتی جب سائیکل کا چالان ہوا تھا

ہم نے کیسے بھوکے پیاسے بیچاروں سی ایکٹنگ کی تھی

حوالدار نے الٹا ایک اٹھنی دے کر بھیج دیا تھا ایک چونی میری تھی

وہ بھجوا دو

میرا کچھ سامان تمہارے پاس پڑا ہے وہ بھجوا دو۔

اور اسی موسم میں جوانی کے ساتھ ہی خود ڈھل جانے والا ناصرؔ یوں نوحہ کناں ہوتا ہے۔

پھر ساون رُت کی پون چلی تم یاد آئے

پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے

پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں

رُت آئی پیلے پھولوں کی، تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے سُونے آنگن میں

پھر اَمرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).