شہباز کرے گا پرواز؟


وزارت عظمیٰ کے لیے امیدواری کے بعد اب جبکہ حکمران جماعت کی سربراہی بھی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سپرد کی جا چکی ہے، مسلم لیگی حلقوں میں اب یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ کیا شہباز شریف وہ سب کرنے کی پوزیشن میں ہیں جس کا وہ گذشتہ کچھ عرصے میں پارٹی اجلاسوں میں دعویٰ کرتے رہے ہیں۔

گو کہ اس بارے میں شہباز شریف نے کبھی ریکارڈ پر یا عوام کے سامنے اس بارے میں لب کشائی نہیں کی لیکن مسلم لیگی حلقوں میں یہ بات بہت عام ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے بڑے بھائی کو پانامہ مقدمہ سپریم کورٹ میں شروع ہونے کے وقت سے یہ کہہ رہے تھے کہ محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے۔

بعض سینیئر مسلم لیگی رہنماؤں کے مطابق شہباز شریف نے متعدد بار پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے سامنے یہ تاثر دیا کہ اگر نواز شریف محاذ آرائی پر مبنی اپنے بیانیے کی تشہیر روک دیں تو نہ صرف یہ کہ ان کی مشکلیں آسان ہو سکتی ہیں بلکہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کو باقی جماعتوں جتنے مواقع (لیول پلیئنگ فیلڈ) مل سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کی جیت تقریباً یقینی ہے۔

شہباز شریف اور ان کے کیمپ کے لوگ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کے مضمرات بیان کرتے ہوئے جس دوسرے اہم ممکنہ مسئلے کی نشاندہی کرتے رہے ہیں وہ ناموافق حالات میں مسلم لیگ ن کے اندر ٹوٹ پھوٹ کے خدشات ہیں۔

مسلم لیگ کے اندرونی حلقوں میں جس خدشے نے گذشتہ چند ماہ میں سر اُبھارا ہے وہ ہے مسلم لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے مضبوط امیدواروں کا پارٹی سے علیحدہ ہو جانے کا خطرہ۔

مسلم لیگ ن کو ابھی تک ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھنے کا کریڈٹ لیتے ہوئے شہباز شریف کیمپ پارٹی اجلاسوں میں یہ تاثر دیتا رہا ہے کہ اگر نواز شریف کی محاذ آرائی پر مبنی پالیسی ایک خاص حد سے تجاوز کرتی ہے تو انھیں آئندہ انتخابات کے دوران بہت بڑا چیلنج اچھے امیدواروں (الیکٹ ایبلز) کو قابو میں رکھنا ہو گا جن کی بڑی تعداد پہلے ہی نواز شریف کی محاذ آرائی کے ان تک پہنچنے والے ممکنہ اثرات سے خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں۔

شہباز شریف وزیراعلیٰ کے طور پر ایک اچھے منتظم کا کریڈٹ بہت شوق سے وصول کرتے ہیں۔ اپنے بیٹے حمزہ شہباز کے ذریعے میں صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کے صدر کے طور پر ارکان کے ساتھ بہت قریبی رابطے رکھنے کے بھی ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن جس مشکل صورتحال سے مسلم لیگ ن اس وقت دوچار ہے، اور جس سے نکالنے کے دعوے شہباز شریف پارٹی اجلاسوں میں کرتے رہے ہیں، اب جبکہ انہیں پورا کرنے کا وقت آیا ہے، شہباز شریف خود بظاہر ایک مشکل صورتحال میں ہیں۔

صوبہ پنجاب میں جن بڑے ترقیاتی منصوبوں کا شہباز شریف کریڈٹ لیتے ہیں ان میں ان کے دست راست سرکاری افسر احد چیمہ نیب کی حراست میں ہیں۔ عمران خان کہ رہے ہیں کہ احد چیمہ وہ طوطا ہیں جس میں شہباز کی جان ہے۔

ابھی تک تو ان منصوبوں میں بد عنوانی کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا لیکن شہباز شریف کے ساتھ صوبے میں بعض منصوبوں پر کام کرنے والے بعض افسروں کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں میں سے بد انتظامی ڈھونڈ نکالنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ جس رفتار سے شہباز شریف اور احمد چیمہ کاغذی کارروائیاں مکمل کرتے رہے ہیں وہ بعض قواعد کو نظرانداز کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ایسے میں نواز شریف کے اقامہ کی طرز پر شہباز شریف کے خلاف بھی کوئی کاغذ اگر سامنے آ جاتا ہے تو یہ کوئی انہونی نہیں ہو گی۔ ایسے میں مسلم لیگی حلقوں میں جو سوال گذشتہ چند روز سے گردش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا احد چیمہ کی گرفتاری پرواز سے پہلے ہی شہباز کے پر کترنے کی کوشش تو نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp