اردو زبان عجائب گھر میں رکھی کوئی مورت نہیں


الحمرا ہال اور اس گرد و جوار یاد دلاتے ہیں، بہت سارے پرانے ادبی اور ثقافتی فسٹیول کی، کالج کے زمانے میں یہ سب فیسٹیول میرے لیے مقدس تہوار کا سا درجہ رکھتے تھے۔ کبھی این۔ سی۔ اے کے دوستوں کی پرفارمنس ہوتی، کبھی کبھی کسی کالج کے گروپ کا سٹال ہوتا، کبھی فائن آرٹس والے دوستوں کی دھونس کے ہمارے سٹال پر ضرور آنا۔ اکثر گھومتے پھرتے راہداریوں میں کوئی نہ کوئی ٹیچر مل جاتے، ہم لوگوں کو وہاں شرکت کرتا دیکھ کر زیر لب شاباشی مسکراہٹ اور بس ان کا یہ کہ دینا، ویری گڈ، دل اور حوصلہ بڑھا دیتا تھا۔ اکثر کوئی نہ کوئی، ادیبوں کا گروپ نظر آجاتا، کبھی کوئی کالمسٹ، اداکار اور بے شمار اپنے کالج، دوسرے کالجوں میں پڑھنے والے اپنے فرینڈز اور ٹیچرز مل جاتے۔ یہ بات کوئی بہت پرانی نہیں مگر بہت ہی کم عرصے میں ان فیسٹیول کا رنگ بدل گیا۔ پرانے فریندز اور ٹیچرز آنا کم ہوتے گئے اور ان کی جگہ وہ لوگ آگئے جن کی کتاب سے محبت کم اور فیسٹیول سے محبت زیادہ تھی۔

اردو ادب اور انگریزی کے ناول ہم سب ہی بے حد شوقین تھے، شفیق الرحمن، مشتاق احمد یوسفی، پطرس بخاری اور ابن انشا کی تمام کتابیں تو سکول کے زمانے میں پڑھ لی تھیں، فیض، فراز کے شعر ازبر تھے۔ منٹو اور عصمت چغتائی کے افسانوں کے پڑھنے کا ایک مقابلہ تھا۔ دوسری طرف سیڈنی شیلڈن، ہیرولڈ روبن کی ے ناول بھی نہ چھوڑے، ورڈز ورتھ، شیلے اور کیٹس کی بھی شو مار لیتے تھے۔ چارلز ڈکنز اور شئیکسپئر پڑھے بغیر یہ فہرست ادھوری تھی۔ میرے والد کا تعلق علی گڑھ یونیورسٹی سے تھا۔ غلط اردو یا انگریزی دونوں ہی میرے گھر میں ایک جرم تھے۔ درد مذکر تھا اور درد ہوتا ہے نہ کہ ہوتی ہے، باہر میں ہ پر زبر ہے نہ کہ زیر ہے۔ غرض کہ ہر لفظ کے آداب جڑے ہو ۓ تھے، شعر کس طرح سنانا ہے اور دوسروں کی تعریف کرنا دونوں کا تعلق تہذیب سے ہے۔ گھر سے سکھایا گیا کہ ڈینگیں اور بڑنگیں مارنا نہایت چھچھورا کام ہے۔ خالی برتن زیادہ بجتا ہے، یہ بات جلد سیکھ لی۔ تہذیب اور تمدن کا تعلق تو روزمرہ زندگی سے ہے۔ یہ کوئی میوزیم میں سجی ہوئے مورت تو ہے نہیں۔

یہ بات کوئی بہت پرانی بھی نہیں، لیکن کچھ ہی سالوں میں دیکھا کہ ہاتھ دھونے کا عام سا عمل بھی ہینڈ واش بن گیا۔ بچوں سے اردو میں بات کرنا، کوئی کومپلیکس بن گیا۔ دادا دادی اور ماں باپ حتٰی کے گھر کے ملازمین پر بھی بچوں سے انگریزی میں بات کرنے کا بھوت۔ کافی ملکوں کی میں نے سیاحت کی ہے، امریکہ اور انگلینڈ کے بچے انگلش بولیں سمجھ آتا ہے مگر تمام یورپ اور ترکی میں بچوں کو مادری زبان پر مکمل عبور ہے۔ ماں باپ فر فر مادری زبان بولتے ہیں اور وہ بچہ بھی پوری طرح سمجھ لیتا ہے، ڈانٹ یا پیار زبان مادری ہوتی ہے۔ اس لہجے کو سکہ بند مستند سمجھا جاتا ہے۔

مگر ہم کیونکہ غلام ابن غلام ہیں، ہمیں بچے کو ڈانٹنا اور پیار کرنا دونوں آقا کی زبان میں اچھا لگتا ہے۔ گھر میں اور خاص طور سے گھر سے باہر بچوں سے انگریزی زبان میں ہی بات لازمی ہے۔ مجھے تو اس پر بھی اعترض نہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اردو کتاب اور ادیب کی جگہ صرف ایک فیشن ایبل میوزیم کی رہ گئی ہے۔ اس دفعہ لٹریچر فیسٹیول پر جو ویرانہ تھا اس کے بہت سارے عوامل ہیں۔ اب ایسے فیسٹیول صرف ایلیٹ کے لئے رہ گئے ہیں، کالج اور یونیورسٹی کے لیول پر بھی یہ شرف صرف ایلیٹ سکول اور کالج کو حاصل ہے۔ کوئی عام وام آکر تو دیکھے اور نہ تو مقامی ادیب کی کوئی جگہ ہے۔ ادیب بھی صرف وہ جو ایک خاص طبقے سے تعلق رکھے۔ آنے والے بھی وہ لوگ زیادہ جو ادب سے نا آشنا۔

داستان گوئی کا مزہ تب آتا ہے جب طلسم ہوش ربا اور داستان امیر حمزہ کی ایک سے لے کر دس تک کی سیریز پڑھی ہو۔ داستان گو میصم کے اگلے جملے سے پہلے وہ جملہ آپ کے ذہن میں، اچھلے۔ یوسفی صاحب کا مزاح سننے کا مزا تب ہے جب، ان کی کتابیں بھی پڑھی ہوں، تاکہ ان کے اسلوب سے واقف ہوں۔ پنجاب، لکھنوء یا کوئی بھی تہذیب ہو، اس سے محبت اور شناسائی کے بغیر آپ اس کے دعویدار ہو نہیں سکتے۔ جب بچوں سے بات انگریزی میں ہو، اردو سے نا بلد ہونا فیشن ہو، کتاب سے رشتہ صرف سجاوٹ کا ہو تو ایسے فیسٹیول کی حیثیت صرف ہیش ٹیگ اور سیلفی تک کی رہ جاتی ہے۔ اگر جینوئن لوگوں کے بجائے صرف ایسے موقعے صرف شو بازی کے لئے استعمال ہوں گے۔ تو پھر انجام یہ ویرانہ ہی ہوگا۔ ہیش ٹیگ اور سیلفی سے صرف اور صرف یہ ایک دو دن کی آؤٹنگ بن جاتی ہے۔

جو لوگ عام زندگی میں بچوں سے اردو میں بات کو کم تر سمجھیں، اردو کتاب سے لگاؤ ہو نہیں، داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوش ربا ایک عجوبہ نام ہو، وہاں پر اندر کے کومپلیکس کے علاج کی زیادہ ضرورت ہے۔ اردو بولنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بچوں کو اچھی انگریزی نا سکھائی جائے، بیک وقت فرینچ، جرمن اور انگریزی بولنے والے بچے اردو بھی بول سکتے ہیں۔ میں نے پہلے آرٹیکل لکھنے کا آغاز انگریزی اخبار دی نیوز سے کیا، بہت کچھ لکھا پھر ایک اچھے دوست نے ڈیلی ٹائمز میں لکھنے کی دعوت دی، وہاں بھی ایڈیٹوریل صفحے کے لیے لکھا۔ اچھا اردو ادب پڑھنا ہمیشہ کام آیا اور اس نے انگریزی کے اسلوب میں بھی میرے ذہن کو نکھارا۔ اردو زبان لکھنا اور بولنا کہیں بھی انگریزی کو کمزور نہیں کر سکتا۔ دراصل کمزوری اس سوچ کی ہے جو ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی زبان اور تہذیب کو عجائب گھر میں سجا کر سیلفی لیں اور دماغ پر ایک عدد شاپر چڑھا کر رکھیں، مگر شاپر بھی کسی برانڈ کا ہونا چاہیے۔ انگریزوں نے بھی برصغیر پر قبضہ کر کے ہماری زبان مجبوراً سیکھی تھی مگر ہم اپنے بچوں کو نہیں سکھانا چاہتے اس کو کہتے ہیں، شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).