سانوں شریعت والے پل تے بلا کے سعودی ماہی لبرل ہو گیا


پاکستان اندرونی اور بیرونی خلفشار کا شکار نظر آ رہا ہے۔ دن بدن سیاسی اور معاشی طور پر کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ 70 سالوں سے سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیاں سرد جنگ والے ماحول کی خبریں گردش کرتی رہی ہیں۔ ملک کی خارجہ پالیسی بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ امریکا بہادر کے ساتھ فوجی و اقتصادی معاہدے کر کے ہم امداد تو لیتے رہے مگر کبھی بھی ضرورت کے وقت ہم ان کے تعلقات سے مستفید نہ ہو سکے۔ ہم امریکا کو مختلف خطابات سے نوازتے رہے اور امریکا بھی ہمیں اپنے مفاد کے لیے وقت ضرورت استعمال کرتا رہا ہے۔ پاک چین دوستی ہمالیہ سے اونچی سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے والی مثالیں ابھی تک تو جاری و ساری ہیں۔ بھارت سے تو ہماری ازلی دشمنی ہے۔ ایران بھی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے مگر کبھی کبھار الزام تراشی کر کے حساب برابر کر دیتا ہے۔

دوسرا ہمارا برادر اسلامی ملک افغانستان ہے جس کے لیے ہم امریکا بہادر اور برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے امداد پر اسلام کے سپہ سالار جنرل ضیاء الحق کے سربراھی میں افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں حصہ بنے اور دنیا کے جنگجوں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آباد کر کے جہاد کے نام پر ٹریننگ دے کر اپنے لیے گڑھا کھودا۔ روس کی شکست کے بعد امریکا اور ہمارا برادر اسلامی ملک سعودی عرب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ بس ہماری امداد چلتی رہی اور ہم ان کا آلہ کار بنتے رہے۔ 9/11 کے بعد اسلام اور پاکستان کے سارے خیر خواہ ہمارے دشمن بنتے گئے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان سیاسی، سماجی، مذہبی اور دہشتگردی کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ جانی اور مالی قربانیوں کے باوجود پاکستان کو شک کے نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ آئے روز امریکا اور افغانستان کے طرف سے پاکستان کے اوپر الزام تراشی کی جاتی ہے۔

ایک طرف تو امریکا اور افغان حکومت افغانستان میں امن کے قیام کے لیے کافی عرصے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف عمل ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے لیے سوچا جا رہا ہے۔ اگر ہم اسلام کے نام پر امریکا اور سعودی عرب کے مفاد کی جنگ میں نہ پڑتے تو شاید آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

پاکستان میں انتہا پسندی، مذہبی منافرت، فرقہ پرستی کی بنیاد ڈالنے والے سعودی عرب کی لبرل بننے کی مثالیں دنیا دے رہی ہے اور افغانستان سمیت خطے میں ہر برائی کی جڑ اب پاکستان کو سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے والے سعودی عرب نے مدرسوں اور مذہبی تنظیموں کو مالی اور اخلاقی امداد دی کر مذہب کے نام پر نفرت کی ایسی نرسریوں کی بنیاد ڈالیں کہ ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن آج جب ہم مذہب کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں تو اب سعودی عرب لبرل بنے کو چلا ہے۔

آئے روز سعودی عرب میں ویلنٹائن ڈے سے لے کر دیگر لبرل اور آزاد خیال تہوار منا کر شخصی آزادی کی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں مگر پاکستان میں ایسے تہواروں کی نمود و نمائش اب قانوناً جرم بن چکی ہے۔ سعودی عرب اپنی بادشاہی کو بچانے کے لیے تو لبرل ہن رہا ہے مگر شام سے لے کر یمن اور ایران کے حوالے سے بظاہر اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ابھی بھی سعودی عرب اپنی فوج طاقت کو حاصل کرنے کے لیے مختلف ممالک سے بات چیت کر رہا ہے تاکہ وہ خطے سمیت اپنے مخالفین کے اوپر اپنی چودھراہٹ قائم کر سکے۔ ہمیں سعودی عرب کے لبرل بننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر ہم یہ امید کرتے ہیں کہ اب سعودی عرب پاکستان میں سیاسی اور غیر سیاسی رہنماؤں کو بڑے بڑے تحائف دینا اور مذہب اور مسلک کے نام پر پیسے، دودھ، کھجوریں اور کمبل بانٹنا بند کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).