کلچرل پالیسی اور فلم میکنگ


پچھلے دنوں پنجاب میں کلچرل پالیسی کا اعلان ہوا اور فلم کے فروغ کے لئے فلم انڈسٹری کو صنعت کا درجہ دیا گیا۔ نئے سٹوڈیو بنائے جائیں گے، فنکاروں کی انشورنس ہو گی، باہر سیآنے والے فلم میکر کو کھانے پینے پر 70فیصد چھوٹ ہو گی، یعنی بہت کچھ ہوگا بہت پیسہ خرچ کیا جائے گا لیکن نہیں ہو گا جو اچھی فلم بنانے کے لئے ہونا چاہیے۔

آپ خاطر جمع رکھیئے ایسی کوئی کوشش نہیں ہو رہی جس کے تحت کہانی کے معیار کو جانچنے کا اصول یا طریقہ واضح کیا جائے۔
کوئی ایسی کوشش نہیں ہو رہی کہ فلم کو تمام دوسری پروڈکٹس کی طرح عالمی سطح پر مقابلہ کے لئے بنایا جائے۔
آپ فکر نہ کریں رائٹر کو چائے، پانی پر ہی نہیں لمبے لمبے ڈائیلاگ لکھنے اور لیکچر بازی کرنے پر بھی ہر طرح سے چھوٹ ہو گی۔

ایک زمانہ تھا جب فیض احمد فیض، کرشن چند، خواجہ احمد عباس، سعادت حسن منٹو جیسے لوگ فلم کی کہانی لکھتے تھیا؟ آج تک کسی بڑے مصنف یا اچھا افسانہ اور ناول لکھنے والوں کا بورڈ بنانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی، ویسے بھی رائٹر کی ضرورت ہی کیا ہے کسی ہٹ فلم کی کہانی اٹھائی، ایک آئٹم سانگ ڈالا، کچھ گولیاں چلائی اور پیسے واپس۔

بھئی ویژن صرف پیسہ بانٹنے سے شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا بلکہ اپنے مسائل کی نشاندہی اور مسائل کا حقیقت پسندانہ حل ڈھونڈنے سے عبارت ہے۔
پیسہ بانٹنے سیآپ کو سیاسی فائدہ تو ہو جائے گا، فلم کے چند کرتا دھرتا لوگوں کی پارٹیاں سج جائیں گی، بنک بیلنس بڑھ جائیں گے لیکن کہانی، کردار، پلاٹ اورسلیکشن وہی گھسی پٹی اور بوریت پر مبنی ہو گی

اگر کوئی خودساختہ دانشور اپنے تئیں نئے خیال کی داغ بیل ڈالنے نکلے تو بہت آسان ہے؟ آٹھ دس سماجی برائیوں کا ایک ملغوبہ بنا کر کٹی پٹی سی کہانی گھڑی اور جہاں پھنسے نصیر الدین شاہ جیسے آرٹسٹ سے لیکچر دلوا دیا۔

اللہ اللہ خیر صلا، یہاں کون سا فلمی نقاد بیٹھے ہیں جو تعمیری تنقید کریں گے۔

تو جناب شوق سے انڈسٹری کو صنعت بنائیے لیکن پیسہ لگائیں، کہانی پر، کہانی لکھنے والوں پر، سٹوڈیو بنانے کا کیا فائدہ! اب لوگ اپنے سیل فون پرآؤٹ ڈور فلم شوٹ کر لیتے ہیں۔
اگر چند معروف ناموں کو خوش کرنا مقصود ہے تو پھر جیسے مرضی پیسہ بہائیے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).