طیب اردوان کی جیل سے فرار ہونے والی تحریر


ترک صحافیوں کے بارے میں لکھے جانے والے کالم کی ابھی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ احمت التان کا وہ مضمون شائع ہوگیا جو انھوں نے جیل کی کوٹھری سے لکھا۔ میں نے اپنے کالم میں احمت التان کا بطور خاص ذکر کیا تھا، اسی لیے میں نے ان کی اس تحریر کو خاص دلچسپی سے پڑھا۔ یوں بھی ہمیں ترک صحافت اور ادب سے خصوصی دلچسپی ہے۔

ترک، ادبی روایات اور جاندار صحافت کا ایک شاندار خزانہ رکھتے ہیں، جو ہمارا بھی تاریخی ورثہ ہیں۔ ضیا گولپ پاشا نے 1923ء میں کہا تھا کہ ہم ترک قوم، اسلامی برادری اور مغربی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔

بہمت عاکف ایر سوئے، یاسرکمال، ایہان برق، حالدہ ادیب خانم، عزیز نیسن، انیس باتور کے علاوہ اورحان پامک ہے جس نے 2006ء میں ملنے والے نوبیل انعام کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی اور ناظم حکمت جس نے اپنے خیالات کی بنا پر کئی برس جیل میں گزارے اور ہم جس سے ان تراجم کی وجہ سے اچھی طرح واقف ہیں جو فیضؔ صاحب نے کیے۔ ترک خواتین نے بھی بہترین شاعری اور نثری ادیب تخلیق کیا۔

1956ء سے 2008ء اور اس کے بعد بھی فوجی بغاوتوں اور  انقلابات کے دوران غریب ترک آبادیوں پر کیا گزری۔ اپنے بچوں کو ڈھونڈتی ہوئی بے آسرا مائیں اور اناطولیہ کی وہ عورتیں جنھوں نے ہتھیار اٹھائے اور اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑیں۔ ایک ترک ادیب Muge Iplickci جس کے ناول ’’کوہ قاف‘‘ میں ہمیں ایک پاکستانی لڑکی زاہدے کی تلاش ملتی ہے۔

ایلف شفق کا نام ترک ادیب خواتین میں سب سے مشہور ہے جس نے عورتوں، اقلیتوں اور پسماندہ طبقات سے کرداروں کو اٹھایا ہے اور دنیا کو بتایا ہے کہ جہاں وہ رہتی ہیں وہاں ناانصافی کا دور دورہ ہے۔

ان کے علاوہ بھی متعدد ترک ادیب اور صحافی ہیں جنھوں نے دنیا میں نام کمایا لیکن یہاں میں اس تحریر کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہوں جو جیل کی ایک کوٹھری میں لکھی گئی اور اس کے چند گھنٹوں بعد وہاں سے فرار ہوگئی۔ سوشل میڈیا کو دعائیں دیجیے جس کی وجہ سے وہ چند گھنٹوں کے اندر ہی دنیا بھر میں اپنے لکھنے والے کی کہانی سنا رہی تھی۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں جب بعض دوسرے مسلمان ملکوں کی طرح ترکی میں بھی چھاپے خانے کا آغاز ہوا اور کتابوں کے ساتھ ساتھ اخبارات شائع ہونے لگے، مزاحمتی تحریریں چھپنے لگیں، صحافیوں نے سچ لکھا اور اس اندازتحریر کی انھوں نے بھاری قیمت ادا کی۔ سیکڑوں قتل ہوئے اور سیکڑوں مفقودالخبرٹھہرے۔ بہت سے آج کی حکومت کے عتاب کا شکار ہیں۔ آج ایک مغربی اخبار کا انٹرنیشنل ایڈیشن اٹھایا تو معروف ترک ادیب اور کالم نگار احمت التان کی وہ تحریر نظر سے گزری جو اس نے عمرقید کی سزا سننے کے چند گھنٹوں بعد لکھی، وہ تحریر خفیہ طور پر قیدخانے سے باہر نکلی اور چند گھنٹوں کے اندر سوشل میڈیا اور ساری دنیا کے اہم اخباروں میں شائع ہوچکی تھی۔

احمت التان نے استنبول کے مضافات میں بنی ہوئی سلیوری جیل سے ان دو ججوں کے بارے میں لکھا جو ڈھائی گز اونچے پلیٹ فارم پر بیٹھے تھے۔ ان کے بدن پر سیاہ لبادے تھے اور ان کی قمیصوں کے کالر سرخ رنگ کے تھے۔ انھوں نے اپنی ٹائیاں ڈھیلی کر رکھی تھیں اور چند گھنٹوں کے اندر وہ احمت التان، اس کے بھائی مہمت التان اور تیسری ادیب اور صحافی خاتون نازلین کی زندگی کا فیصلہ کرنے والے تھے۔

وہ صحافی جو اپنے مقدر کے فیصلے کا انتظار کررہے تھے، ان میں سے ایک نے چیف جسٹس سے کہا کہ اس کے دل کا بائی پاس آپریشن ہونے والا ہے تو چیف جسٹس نے اپنا مائیکرو فون کھولا اور واضح اور صاف الفاظ میں کہا کہ ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہیں جیل سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس سے کہا گیا کہ اس کا دل کام کرتا ہے یا رک جاتا ہے یہ عدالت کا مسئلہ نہیں ہے۔

اپنی اس ’مفرور تحریر‘ میں احمت التان ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا وکیل جب محترم عدالت کے سامنے صفائی پیش کررہا تھا اور نہایت اہم نکات اٹھا رہا تھا تو جج کی کرخت آواز نے اسے بتایا کہ صفائی کا بیان مکمل کرنے کے لیے اس کے پاس صرف 2 منٹ ہیں۔ ان دو منٹوں میں وہ اپنا بیان مکمل کرلے۔

اس مرحلے پر وہ الیاس کانتی کی ایک تحریر کا حوالہ دیتا ہے جس میں الیاس نے کہا تھا کہ وہ لوگ جو اپنے گھروں اور اداروں میں محفوظ و مامون ہوں، جو چین و آرام سے عیش کی زندگی گزار رہے ہوں، وہ جب اپنے بہرے کانوں سے کچھ لوگوں کی فریاد سنیں اور تہیہ کرچکے ہوں کہ انھیں کچھ نہیں سننا، کیا ایسے لوگوں سے سنگدل اور سفاک کوئی ہوسکتا ہے۔

ایسی باتیں وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو کسی کال کوٹھری میں بند کردیے گئے ہوں اور جنھیں صاحب انصاف سے کسی انصاف کی توقع نہ ہو۔ اپنے مقدمے کی روداد بیان کرتے ہوئے احمت التان نے لکھا کہ پھر ججوں نے ہم سے کہا کہ ابھی عدالت دو گھنٹے کے لیے برخاست کی جاتی ہے تاکہ ہم آپس میں مقدمے کے حوالے سے مشورہ کرسکیں۔

اس حکم کو صادر کرنے کے بعد جج صاحبان اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے اور پولیس کے کارندے احمت اور اس کے ساتھیوں کو دھکے دیتے ہوئے عدالت کی تنگ سڑھیوں سے اتار کر نچلے حصے میں لے گئے جہاں انھیں تقدیر کے فیصلے کا انتظار کرنا تھا۔ فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے احمت التان کو اپنا ایک ناول ’’شمشیر کے زخم کی مانند‘‘ یاد آتا ہے۔ یہ ناول خلافت عثمانیہ کے آخری دنوں کے بارے میں ہے اور اس کا ایک کردار جو گرفتار کرلیا گیا ہے، وہ حوالات میں اپنے مقدمے کے فیصلہ ہونے کا انتظار کررہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے مقدر کا فیصلہ کیا ہوگا، اس کے باوجود وہ ایک دوسرے فیصلے کا خواب دیکھ رہا ہے۔

احمت التان کو اپنے لکھے ہوئے یہ جملے یاد آئے تو سردی کی ایک لہر اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ اس نے اپنے ناول کے ایک کردار کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا، اب وہی سب کچھ اصلی زندگی میں اس کے ساتھ ہورہا تھا۔ اس لمحے احمت کو احساس ہوا کہ وہ اپنی تقدیر سے ملاقات کررہا ہے جس کے بارے میں وہ پہلے ہی لکھ چکا تھا۔

ان لوگوں کو عدالت کی نچلی منزل میں کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ایک عدالتی اہلکار کی آواز آئی جو قیدیوں کو واپس بلارہا تھا اور باآواز بلند کہہ رہا تھا کہ آؤ اور اپنی زندگی کا فیصلہ سنو، سارے قیدی اوپر پہنچائے گئے۔ جج بھی آچکے تھے اور اپنے سیاہ کوٹ دوبارہ سے پہن رہے تھے۔ پھر چیف جسٹس نے تمام قیدیوں کو عمرقید کی سزا سنادی جس میں وہ کبھی پیرول پر بھی رہا نہیں کیے جاسکیں گے۔

اس فیصلے کے بعد احمت التان اور تمام دوسرے صحافی جو ترکی میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، انھیں ہتھکڑیاں لگادی گئیں اور اس کوٹھری میں بھیج دیے گئے جہاں سے رہائی کے لیے وہ موت کی خواہش کریں گے، کوٹھری جو تین میٹر لمبی اور تین میٹر چوڑی ہے۔ وہاں سے انھیں روزانہ ایک گھنٹے کے لیے باہر نکالا جائے گا تاکہ وہ سورج کی روشنی کو دیکھ سکیں۔

یہ سب کچھ جو ان ترک ادیبوں اور صحافیوں پر گزری یہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ان لوگوں پر گزر رہی ہے جو اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے انسانی حقوق کے طلبگار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کا مقدر غربت وافلاس اور توہین آمیز زندگی کیوں ہو، وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں اور غدار، دشمن کے ایجنٹ اور بکے ہوئے لوگ کہلاتے ہیں۔

ایک طرف ان کی حکومت کو اس بات کا شوق ہے کہ یورپین یونین اسے اپنی رکنیت دے دے، دوسری طرف ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں کے ساتھ اس کے سخت رویے میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ لوگ جو آزادی تحریر وتقریر کا مطالبہ کرتے ہیں وہ درحقیقت بارودی سرنگوں سے بھرے ہوئے علاقے میں قدم رکھنے کی جسارت کرتے ہیں۔ انھیں یہ ہرگز نہیں معلوم کہ کب ان کے پیر کسی بارودی سرنگ سے ٹکرا جائیں گے اور وہ بھی صاحبان اقتدار اور عدالت کی نظر میں آجائیں گے۔

جن لوگوں کی وہ رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں، جس آزادی تحریر و تقریر کو وہ بڑھاوا دے رہے ہیں، وہ خود ان کے لیے ایک نایاب شے ہوجائے گی۔ وہ زندان میں ہوں گے اور دوسرے ان کی رہائی کا، ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کررہے ہوں گے۔ ایک ترک صحافی نے جب اپنے کئی وزیروں سے یہ سوال کیا کہ اسے بتایا جائے کہ واقعی کتنے صحافی جیل میں ہیں تو اسے جواب ملا کہ ہماری جیلوں میں کوئی صحافی موجود نہیں۔

بہت چھان پھٹک کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ جیل میں ہیں جن کے روابط دہشتگردوں سے ہیں یا جو کالعدم تنظیموں کے رکن یا ہمدرد ہیں۔ اگر ترک دانشوروں اور ادیبوں سے بات کی جائے تو ان کا کہنا ہے کہ سارا مسئلہ نکتہ نظر کا ہے۔ ہمارے یہاں عرصے سے مقتدر طبقات اور عدالت، دونوں عدم برداشت کے راستے پر گامزن ہیں۔ ایک ایسی صورت حال میں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایک سخت گیر حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والی عدالت کسی قسم کی رواداری کا مظاہرہ کرے۔

یہ وہ صورتحال ہے جس سے تیسری دنیا کے بہت سے ملک اور بطور خاص مسلم ملک دوچار ہیں۔ وہ معاملات جنھیں امریکا اور یورپ میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور جو آزادی اظہار کے زمرے میں آتے ہیں، وہی مسلم اُمہ کی مقتدر قوتوں اور ان کی عدالتوں کی اکثریت کو برداشت نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان ملکوں میں اگر منتخب حکومتیں ہیں تو وہ بھی جمہوریت کو نافذ نہیں کر پاتیں اور مقتدر قوتوں اور ان کی زیر سرپرستی کام کرنے والی عدالتوں سے لرزہ براندام رہتی ہیں۔ یہ کسی ایک مسلم ملک کا نہیں، ہم سب کا المیہ ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ بارودی سرنگوں سے بھرے ہوئے ان میدانوں سے یہ سرنگیں کب سمیٹی جا سکیں گی اور باضمیر لکھنے اور سوچنے والے کب اس توقیر کے قابل سمجھے جائیں گے جو ان کا حق ہے۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).