ن لیگ کو ایم کیو ایم کے انجام سے سبق سیکھنے کی ضرورت


ملک میں سینیٹ انتخابات مکمل ہو گئے۔ لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ سینیٹ کے یہ انتخابات ملک کی سیاسی قیادت کو ایک بڑا سبق دے گئے ہیں۔ یہ انتخابات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہوش کریں ورنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ ان انتخابات میں بڑے بڑے اپ سیٹ بھی ہوئے ہیں۔ جیتنے والے ہار بھی گئے ہیں اور ہارنے والے جیت بھی گئے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں جو جیتے ہیں وہ بھی خوش نہیں ہیں اور جو ہارے ہیں وہ بھی خوش نہیں ہیں۔

سب سے پہلے تو ایم کیو ایم سے ملک کی ساری سیاسی قیادت کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے تجزیہ نگار ایم کیو ایم کے ووٹ بینک، تنظیمی ڈسپلن اور سیاسی قوت کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے۔ مثالیں دی جاتی تھیں کہ بڑے سے بڑا بحران بھی ایم کیو ایم کی سیاسی قوت کو ختم نہیں کر سکا۔ لوگ اس کے ووٹ بینک کو اٹوٹ ووٹ بینک کے نام سے پکارتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ کراچی کے لوگ ایم کیو ایم کو ہی ووٹ دیں گے۔ اس کے بانی کی مثالیں دی جاتی تھیں کہ ووٹ بینک ان کے نام کا ہے۔

لوگ الطاف حسین کو ووٹ دیتے ہیں۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب کراچی کے ایک ضمنی انتخاب کو الطاف حسین نے اداروں کے ساتھ ٹیسٹ کیس بنا لیا تھا۔ اور پھر الطاف حسین کے امیدوار نے ایک ضمنی انتخاب میں ایک لاکھ سے زائد وووٹ لے کر یہ انتخاب جیت بھی لیا تھا۔کہا گیا تھا کہ دیکھیں ادارے ووٹ بینک کے سامنے ہار گئے۔ جو مرضی کر لیں الطاف حسین کے ووٹ بینک کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی ووٹ بینک اور اس کی عسکری قوت کی وجہ سے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی بھی  ڈسپلن میں رہتے تھے اور اس ڈسپلن کی بھی مثالیں دی جاتیں تھیں لیکن اب دیکھ لیں کیا ہوا ہے۔

کیا اداروں کے ساتھ مزاحمت کی سیاست نے ایم کیو ایم کو فتح دی ہے۔ سینیٹ انتخابات میں ایم کیو ایم تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ ایک مثالی جماعت ایسا لگ رہا ہے کہ اپنے انجام تک پہنچ رہی ہے۔ ہم نے عملاً  جوتیوں میں دال بٹتے دیکھی ہے۔ سیاسی گدوں ایم کیو ایم کی سیاسی لاش سے بوٹیاں نوچتے دیکھا ہے۔ لوگ ایم کیو ایم کے مردے پر ترس کھا رہے تھے اور سیاسی گدھ اس موقع پر ہوش کے ناخن لینے کے بجائے اپنے حصہ کی بوٹی کے لیے حیوانیت کی آخری حد تک جانے کے لیے تیار تھے اور گئے بھی۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی نے کوئی کمی کر دی۔ اﷲ کے فضل سے نہ فاروق ستار نے کوئی کمی کی اور نہ ہی بہادر آباد نے کوئی کمی کی۔ میں مان لیتا ہوں کہ کسی ایک کے پاس ایم کیو ایم کی تباہی کا اسکرپٹ تھا۔

لیکن دوسرے کو تو پتہ تھا کہ اسکرپٹ موجود ہے۔ ایک کے پاس ایم کیو ایم کو تباہ کرنے کا مینڈیٹ تھا۔ لیکن دوسرے کو تو یہ خیال کرنا چاہیے۔ مسئلہ اپنی فتح یا شکست نہیں، اصل مسئلہ اس اسکرپٹ کو ناکام بنانے کا ہے۔ اگر ایم کیو ایم کی قیادت اپنے بقا کی خاطر اپنے بانی کی قربانی دے سکتی ہے تو آج اپنی بقا کے لیے ایسی قربانی کیوں نہیں دی جا سکتی تھی۔ کیوں دونوں گروپوں نے مکمل تباہی کو ہی گلے لگا لیا۔ شاید دونوں طرف کی سیاسی قیادت سیاسی طور پر اتنی ناعاقبت اندیش تھی کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ انجام کیا ہوگا۔ گیم کیا ہے؟ نتائج کیا آجائیں گے؟ چند دن پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں اور جوتیوں میں دال بانٹنے والوں نے ایک دن پہلے آپس میں بندر بانٹ کرنے کی بھی کوشش کی لیکن دیر ہو چکی تھی۔ سیٹوں کی تقسیم کی بھی کوشش کی گئی لیکن گیم الٹ چکی تھی۔ تا ہم ایم کیو ایم  ملک کی پہلی سیاسی جماعت نہیں ہے جو اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے۔کراچی کے ساتھ تو ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ۔ پہلے بھی ایسا ہوا ہے۔

ایم کیو ایم کو بھی کسی کا مینڈیٹ چھین کر دیا گیا تھا۔ آج ایم کیو ایم کا مینڈیٹ واپس چھین لیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کا جن واپس بوتل میں بند ہو گیا ہے۔ ن لیگ کو سمجھنا ہو گا کہ مزید محاذ آرائی مزید نقصان کا باعث ہو گی۔ سینیٹ انتخابات کے نتائج جہاں ایم کیو ایم کے انجام سے سبق سیکھنے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ وہاں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی جیت سے بھی سبق سیکھیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی جیت بھی کوئی راگ سنا رہی ہے۔

یہ 2108کے انتخابات کا راگ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پنجاب سے پیپلزپارٹی کو کچھ نہیں مل سکا۔ لیکن مائنس پنجاب تو پیپلز پارٹی کی لاٹری لگ گئی ہے۔سندھ میں بڑی لاٹری لگ گئی ہے۔کے پی کے میں دو سیٹیں آجانا بھی کم سرپرائز نہیں ہے۔ بلوچستان سے آزاد بھی پیپلزپارٹی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو ملنی والی کامیابی اتنی ہی حیران کن ہے جتنی ماضی میں ن لیگ اور بالخصوص نواز شریف کو ملنی والی چند بڑی کامیابیاں حیران کن تھیں۔ جس طرح نواز شریف کو دو تہائی مل جاتی تھی ۔ سادہ اکثریت مل جاتی تھی۔ وہ آدھی جیت کو مکمل جیت میں بدل دیتے تھے۔ آج ایسا پیپلزپارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کو ڈوبنے سے بچایا جا رہا ہے۔میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ جیت لی ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کو اتنی غیر متوقع کامیابی نے مکمل آؤٹ ہونے سے بچا لیا ہے۔

شاید اس وقت یہ صورتحال نہیں ہے کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سینیٹ میں مل کر ن لیگ کا راستہ رکیں۔ لیکن یہ ایک آپشن ہے۔ اگر آج نہیں تو کل یہ ہو گا۔ 2018کے انتخابات کے بعد ایسا ہو جائے گا۔ اگر ن لیگ آج سینیٹ میں اپنا چیئرمین لے بھی آئے گی تو یہ بہت عارضی ہو سکتا ہے۔ 2018کے انتخابات کے بعد سینیٹ کی صورتحال پھر بدل جائے گی۔ آج کے دوست کل کے دشمن بن جائیں گے۔ اتحادی حریف بن جائیں گے۔ حریف اتحادی بن جائیں گے۔ اس لیے ن لیگ کو ایم کیو ایم سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ محاذ آرائی کے راستے بند کرنے اور مفاہمت کے راستے کھولنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ مزید مشکلات آگے آئیں گی۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).