سوشل میڈیائی جنگ میں عمر چیمہ کی خیالی بیٹی نشانے پر


سلطنت سوشل میڈیا میں دو ہی حالتیں ہوا کرتی ہیں۔ ایک جنگ اور ایک امن۔ لیکن یہاں امن باقاعدہ کوئی حالت نہیں بس اس حالت کا نام ہے جب جنگ نہ ہورہی ہو۔ ایسی تیز دھار زندگی میں بھی دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حالت جنگ میں شریک جنگ جنگجو ہیں اور دوسرے وہ جو کسی قدیم شہر کی فصیل کی محفوظ پناہ گاہ کی اوٹ سے نیچے چٹیل میدان میں دو فوجوں کو ایک دوسرے کے بخئے ادھیڑتے ہوئے قدرے لا تعلقی سے دیکھتے ہیں اور جنگ کے ممکنہ نتائج سے زندگی کے نئے رخ کا تعین کرتے ہیں اور زمانہ امن میں بھی زیادہ سے زیادہ اپنے گھروں کے سامنے نباتاتی تبدیلی جیسے معمولی سے منصوبے میں مصروف رہتے ہیں۔

ازمنہ قدیم میں جنگ و جدل کے فاتحین اور کسی بھی شاندار قوت کے رعب و دبدبے کا پیمانہ مخالفین کی کھوپڑیوں کے مینار ہوا کرتے تھے۔ اب سوشل میڈیائی زندگی کے زمانہ جنگ میں بھی ٹرینڈز بتاتے ہیں کہ کون سی فوج کا پلڑا بھاری اور کون سی فوج کا کچومر نکل چکا۔ سوشل میڈیائی جنگ میں کسی بھی فوج کا اہم ترین ہتھیار گالم گلوچ ہے۔ جس کے لئے متحارب گروہوں نے باقاعدہ جی جی برگیڈ بھرتی کر رکھی ہے۔ وہی جی جی برگیڈ جس کا مطلب گالم گلوچ برگیڈ ہے۔ گالم گلوچ برگیڈ کے زیر استعمال گالیوں پر مشتمل گولیوں کی نوک پر جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈے کا زہر بھی اہتمام کے ساتھ جمایا ہوتا ہے۔ تاکہ دشمن کی روح تک فنا ہوجائے۔

سوشل میڈیائی جنگ کا یہ ہراول دستہ ہر گھنٹے کے حساب سے تابڑ توڑ حملے کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ پھر جواب شکوہ ہوتا ہے۔ اور اس دوران یہ بھرپور اہتمام کے ساتھ خیال رکھا جاتا ہے کہ تہذیب، اخلاق اور حقائق نامی ماشکیوں کو جنگجووں کے اذہان و قلوب کو تر کرنے نہ دیا جائے۔ مگر ان سوشل میڈیائی جنگوں میں عرصہ سے حصہ لینے والے ریٹائرڈ جنگجوؤں کے میدان سے اٹھنے والے نظریاتی جبلی اور ہیجانی آلائشوں کی شدید بدبو سے بے زار اکثر راہگیروں اور چند امن پسند عالم پاگلوں کا ماننا ہے کہ دیگر جنگوں کے لئے قوائد و ضوابط کی بحث کی طرح اس سوشل میڈیا کی جنگ میں بھی جنگی جرائم کی فہرست تیار ہونی چاہئے اور انہیں روکنا چاہئے۔ اور سوشل میڈیا پر قواعد و ضوابط کی یہ بحث اب بہت پرانی ہو چکی ہے۔

ایسے میں کئی برس پہلے کی گریجویشن کے زمانے کا واقعہ آج بھی یاد آتا ہے۔ جب نامور کالم نگار، اینکر پرسن جاوید چودھری سے سوشل میڈیائی جنگوں کے بارے میں انٹرویو کا موقع ملا سوشل میڈیا کی بے بہا جنگ و جدل کی طاقت سے ٹی وی کے دیوتاوں کی سلطنت کو خطرے سے متعلق سوال پران کا بے بسی کا نمونہ بنا چہرہ اور ان کے درد میں ڈوبے الفاظ کانوں میں آج تک گونجتے ہیں کہ جب وہ بولے میری ہی مثال لے لیجئے فیسبک پرمیرے 10 لاکھ فالورز ہیں اور اس میں سے 9 لاکھ مجھے گالیاں دیتے ہیں تو کیا فائدہ؟ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ کس نے کیا سیکھا ؟ صفر بٹا صفر؟

سلطنت سوشل میڈیا میں کسی بھی مدعے پر کسی بھی مسئلہ کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ دن کو رات سے ملانے پر زور آزمائی ہو سکتی ہے اور پاوں اور منہ کے تقابلی جائزے پر بھی مکمل زور آزمائی کی گنجائش ہے مثلا آج کل میں ہی دیکھئے۔ شام میں غوطہ پرحملے اور سری دیوی کی موت کا مقابلہ سوشل میڈیا پر زور پکڑ گیا عمران خان کے دوران عدت نکاح کی خبر سے صحافی کی مبینہ بیٹی کو حاملہ کر ڈالا گیا۔

اس صورتحال پر جب ماہر سوشل میڈیائی جنگی امور سہیلی سے پوچھا کہ تم سوشل میڈیا کی پردھان ہو۔ یہ شام میں بچوں کو مارا جا رہا ہے اور تم سری دیوی کی موت کے بارود سے بنے گولے داغ رہی ہو؟ جس پر اس کا جواب کسی اچنبھے سے کم نہ تھا کہ شام کی خبر کوئی کھول کر پڑھنے کی زحمت نہیں کرتا۔ جب کہ بالی ووڈ میں کرینہ کے بیٹے کی تصویر ہی کیوں نہ ہو لوگ پاگلوں کی طرح پڑھتے ہیں۔ جب لوگ خود خبر نہیں کھولتے تو ہم کس کے لیے لکھیں۔ وہ کیا کہتے ہیں بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی۔

سوشل میڈیا پر رونے پٹنے والے خبر کیوں نہیں کھولتے؟ اس سوال کی تلاش جاری تھی کہ ٹوئٹر پر موجود صحافی کی مبینہ حاملہ بیٹی کے دوسرے ٹرینڈ نے سوشل میڈیائی جنگ کی غلاظت اور کثافت کا وہ نظارہ کردیا کہ جی متلا اٹھا۔ یہاں تک کہ اس نے مجبور کردیا کہ کچھ کہا جائے۔ کیوں کہ اب سوشل میڈیا پر زمانہ حرب کے کرتا دھرتاوں کو لگامیں ڈالنا ہوں گی۔ ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں نے سوشل میڈیا کی کئ فوجیں کرائے پر لے رکھی ہیں جن کا کام اپنی اچھائی سے زیادہ دوسرے کی ذاتیات کو اچھالنا ہے۔ کیپٹن صفدر کا اپنی اہلیہ مریم نواز کو زندگی میں حور کہنا ہو یا پھر عمران خان کی تیسری شادی ،سوشل میڈیا پر متحارب گروہوں کی بے رحم ٹرینڈ گردی جاری و ساری ہے۔

ٹرینڈ کی شروعات جنگ گروپ کے تحقیقاتی صحافی کی خبر سے ہوئی۔ ان پر گالیوں کی توپیں تب کھل گئی تھیں جب انھوں نے خبر بریک کی کہ عمران خان نے ایک معمولی تقریب میں نکاح کر لیا اور پہلے پی ٹی آئی کی جانب سے تردید ہوئی اور پھر کچھ عرصے بعد تصاویر سامنے آگئیں اور اعتراف ہو گیا کہ عمران خان کی تیسری شادی ہوگئی ہے اور جن جن لوگوں کی نشاندہی عمر چیمہ نے کی وہی لوگ اتفاقا شادی کی تقریب میں شامل ہوگئے کیوں کہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ صحافی کے ذرائع اسی وقوعہ پر موجود ہوتے ہیں۔ ابھی چیمہ صاحب سوشل کے تھنڈر طیاروں کے نشانوں سے نہیں بچے تھے کہ انھوں نے ایک اور خبر دے دی کہ عمران خان کا نکاح بشرا بی بی کی عدت پوری ہونے سے پہلے ہوگیا۔ بس یہ خبر لگنی تھی کہ ٹوئٹر کی عوام نے عمر چیمہ کی بیٹی کا ٹرینڈ بنا ڈالا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق قدرت نے عمر چیمہ کی لبنی نامی بیٹی ہی نہیں بنائی۔ مگر سوشل میڈیا نے اس کا حاملہ ہونے کا ٹرینڈ بنا دیا۔

اس جنگ میں سچ جھوٹ حقیقت فسانے کی بحث سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس شتر بے مہار جنگی میدان کو کوئی ذمہ دار طاقتور اور سمجھدار پلیٹ فارم یا ادارہ کنٹرول میں لائے۔ جہاں قوانین کا اطلاق ہو اور وہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ یہ میدان جنگ سے سوچ و فکر کو جلا بخشنے والا اک اوپن تھیٹر بن جائے۔ وگرنہ اس میدان جنگ میں روز کی بنیاد پر کراہت آمیز آلائشیں اسے قابل نفرت اور ناقابل استعمال بنا دیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).