نیک نصیب کی دعا اور ویری نائس کا آوازہ : بیچ میں معلق عورت کا سوچیے


یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھے ہوئے ایک چھوٹے سے انٹرویو کے دوران اس نے بتایا کہ گولڈ میڈلسٹ ہونے کے باوجود اس نے پی ایچ ڈی میں داخلہ نہیں لیا، وجہ صرف والدین کی اجازت کا نہ ملنا تھا۔ میرا اگلا سوال تھا کہ اگر ایم فل کر لیا تھا تو پر پی ایچ ڈی میں کیا مسئلہ تھا۔ رشتے ملنے میں مسئلہ۔ اس نے جواب دیا، یہ تھی نغمہ جو سکالر شپ کے باوجود پی ایچ ڈی نہ کر سکی۔ صرف نغمہ نہیں اس جیسی بہت سی لڑکیاں تمام تر صلاحیت ہونے کے باوجود بہت سارے خواب آنے والے رشتے کے انتظار میں ادھورے چھوڑ دیتی ہیں۔ نغمہ کے والدین کا خیال ہے ایک پی ایچ ڈی لڑکی کو رشتہ ملنا بہت مشکل ہے، اگر لڑکا نسبتاً کم پڑھا لکھا ہوا تو پھر وہ اپنے سے زیادہ پڑھی لکھی بیوی برداشت نہیں برداشت کرے گا۔ بہرحال ہر صورت میں بیوی اسی صورت میں قابل برداشت ہے اگر وہ میاں سے سماجی، معاشی اور عمر کے رتبے میں چھوٹی ہو۔ رشتہ ملنا کا امکان بھی صرف تب تک ہی ہوگا جب تک وہ ایک خاص پیمانے پر پوری اترتی ہو۔ جس قدر مرضی پڑھی لکھی لڑکی ہو، ٹرالی پریڈ تو بہرحال کرنی پڑے گی۔ عمر، شناختی کارڈ، قد، وزن، آنکھ کا سائز اور رنگ کا ہر زاویے سے معائنہ ہوتا ہے۔ سماجی لحاظ سے یہ ایسی روایت قائم ہے کہ لڑکی اور لڑکی کے والدین دونوں ہی اس کے آگے بے بس محسوس کرتے ہیں۔

اعلی تعلیم اور نوکری جیسا مرحلہ جہاں تک پہنچنے کے لئے کوئی بھی فرد بے حد کوشش اور محنت کرتا ہے وہاں تک بھی ایک لڑکی ہونے کی حیثیت سے مشکلات ڈبل ہیں۔ اعلی تعلیم حا صل کرنے کی کاوش بھی اس کے لیے سوحان روح بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ رشتہ نہ ملنا یا غیر شادی شدہ ہونا، ایم اے کے بعد اس کے لیے ایک طعنہ، سوال، لمحہ فکریہ غرض کے ایک عذاب بن جاتا ہے۔ ابھی لڑکیوں کی 60 فی صد آبادی ناخواندگی کا شکار ہے اور جو تعلیمی اداروں تک پہنچ گئی ہیں وہ بھی مردانہ تسلط سے آزاد نہیں ہیں۔ بہت سارے خواب صرف اچھے رشتے کے انتظار میں ادھورے رہ جاتے ہیں، کیا ایک اچھا رشتہ ملنا ہی ایک عورت کی کامیاب زندگی کا پیمانہ اور معیار ہے۔ شادی کی کامیابی انسان کے ذہنی اور نجی سکون کے لیے لازم ہے مگر کیا ایک لڑکی کی زندگی کا مقصد صرف اچھا رشتہ مل جانا ہے۔

پیدائش سے لے کر جوانی تک صرف۔ خدا تمہارے نصیب اچھے کرے۔ ، کی دعا سننے والی لڑکی کیا کبھی خود کو ذہنی طور سے مضبوط سمجھ سکتی ہے۔ مسئلہ صرف سکول بھیجنے سے حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم ذہنی طور سے خود تعلیم یافتہ نہ ہوں۔ سڑکوں اور گلیوں سے بلند ہونے والی ماں بہن کی گالیاں اور مرد کو عورت پر حاکم سمجھنے والی ذہنیت پڑھے لکھے ترین افراد میں بھی موجود ہے۔ سیکسٹ ہونے کے لیبل کے خوف سے ایسے لوگ جتنا مرضی خول پہن لیں، مگر ہر عورت کو زچ کرنے کا موقع چوک نہیں سکتے۔ وقت پڑنے پر اپنی مرضی کی آیت سنا دیں گے، کسی اور وقت پر سماج کا درس دیا جاتا ہے۔ عورت کی بیوگی پر ہندو رسوم کو آئیدیلائز کر لیتے ہیں، وراثت میں حق کے وقت دادی اور پھپھی کی حق بخشنے کی روایت یاد آجاتی ہے۔ اپنی ماں کے لیے باپ ظالم لگتا ہے مگر اپنی بیوی کے لیے دوہرا معیار ہے۔ دفتر میں موجود خواتین کولیگز کے سامنے فیمینسٹ کا لبادہ جب کے گھر میں موجود عورت کے کام کرنے پر پابندی۔ کوئی ایک پینترا یا کوئی ایک کروٹ یا رخ نہیں ہے۔

میرے جینڈر سٹیڈز سئبجیکٹ کے ایک میل سٹوڈنٹ نے مجھے بتایا کہ مرد عورت پر حاکم ہے۔ اس طرح تو ریاست بھی آپ پر حاکم ہے، اس کلاس میں آپ میرے ماتحت ہیں تو پھر شخصی عزت اور وقار پامال کرنے کا لائسینس میرے اور ریاست دونوں کے پاس ہے! میرے اس سوال پر اس کے پاس تو کوئی جواب نہ تھا۔ مگر میرے ذہن میں بہت سے سوال چھوڑ گیا۔ کیا ہم اپنے تعلیمی نظام سے کوئی ذہنی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے؟ یو این کی امداد تو ہم وصول کر لیتے ہیں مگر کوئی ایسا سوشل چینج پلان آیا جہاں، ذہن کی سلیٹ کو مٹا کر از سرنو پڑھایا گیا ہو اور نئے سبق نقش کیے گئے ہوں؟

8 مارچ کا دن صرف دکانوں کی سیل اور این۔ جی۔ او کی میٹنگز کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔
جوڈتھ بٹلر کے بقول :جب تک عورت کی رسائی پیبلک سپیس تک بآسانی نہیں ہوگی وہ کبھی بھی اداروں اور بڑے فیصلوں کا حصہ نہیں بن پائے گی۔ جس طرح جسمانی طور سے معذور افراد کے لیے، مخصوص قسم کے فٹ پاتھ اور عمارتوں تک رسائیی کے لیے، مخصوص سہولت چاہیے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی باحفاظت رسائی کو ممکن بنایا جائے

گلیوں، سڑکوں دفتر، گاڑی کی پارکنگ اور بازاروں میں گونجنے والے ویری نائس، ماشاٰ اللہ، گھر کی حدود میں ہونے والی ٹرلی پریڈ، نیک نصیب کی دعائیں اور جب شادی ہو جائے تو بیٹے کی دعائیں، دفتر میں موجود عورت کو ریپوٹیشن کی فکر، طلاق یافتہ یا بیوہ کو عزت کی زندگی کی فکر، مسئلہ صرف ایک عالمی دن منانے سے حل نہیں ہوسکتا۔ آنر کلنگ، ایسڈ اٹیک، جرگے کے فیصلوں، ریپ اور چائلڈ میریج سے جو باقی ماندہ بچ جاتی ہیں ان کے حالات بھی بہت خوش آئند نہیں ہیں۔ اس لیے سب سے اہم مسئلہ عورت کے وجود کی اہمیت، شخصیت، جسمانی اور ذہنی تحفظ کا ہے۔ موسلو کی مشہور و معروف :ِ پیرامڈ آف ہیومن نیڈ، انسانی ضروریات کی مخروط۔ اس کے مطابق عورت کی بنیادی ضروریات جیسے جسمانی تحفظ، عزت، شئلٹر اور عزت نفس کی بنیادی ضرورت سے محروم ہے۔ اس عزت اور ضرورت کے لئے تبدیلی کی گنجائش ہمارے اندر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).