عالمی یوم خواتین اور کوئٹہ کی تاج بیگم


تاریخ آٹھ مارچ 2018 ہے، ہزارہ ٹاؤن کے گلزاری محلے میں ایک گھر کے باہر لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں، اور گھر کے اندر سے خواتین اور مردوں کے گریہ و ماتم کی آوازیں آرہی ہیں۔ جنازے کے گرد جہاں اور بھی بہت سارے خاندان والے جمع ہیں۔ تاج بیگم اپنے بیٹے آذر، اور فاطمہ اپنے بھائی کا آخری دیدار کر رہے ہیں۔ تاج بیگم کا بیٹا آج صبح بازار جاتے ہوئے قمبرانی روڈ پر نامعلوم کے ہاتھوں قتل ہوا ہے۔ آذر جو کہ 20 سالہ نوجوان تھا، اپنے معمول کے مطابق روزی روٹی کمانے کے لیے بازار جا رہا تھا، جہاں پر وہ اپنے والد قربان علی کے ساتھ جوتے بیچتا تھا، آذر ہمیشہ وقت کی پابندی کرتے ہوئے صبح جلدی جاکر دکان کھولتا اور دکان کی صفائی کرتا، اور چونکہ جلدی آنے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی تو والد کچھ گھنٹے بعد دکان پہنچتا اور روز مرہ کے کام میں مشغول ہوجاتا۔ لیکن آج شاید پہلی بار آذر کے وقت کی پابندی نے آذر کے خاندان کو بہت بڑے نقصان سے متعارف کرایا ہے۔

محلے کی خواتین تاج بیگم کو پرسہ دیتی ہے، گلے سے لگاتی ہیں، لیکن تاج بیگم اپنے اکلوتے بیٹے کے لاش کی کبھی پیشانی چومتی ہے تو کبھی خود کو دوش ٹہراتی ہے کہ آج میں نے اپنے بیٹے کو کام پر جانے سے کیوں نہیں روکا؟ کیوں آج میں نے تمہیں صبح نماز کے لیے جگایا؟ کاش میں نے آج تمہیں دیر سے ناشتہ دیا ہوتا تو شاید اجل کچھ دنوں کے لیے ٹھہر جاتا۔ ماں اپنا سینہ پیٹتی ہے اور بے بسی کے عالم میں اپنی ہاتھوں سے اپنے بال کھینچتی ہے، کہ شاید ہی اس سے تاج بی بی کے غم میں کچھ کمی آئے۔  وہ اپنے بیٹے کے جسم کی آخری خوشبو یوں سونگھتی ہے، جیسا اس نے پہلی بار جب آذر دنیا میں آیا تھا تب سونگھا تھا۔ آذر کی ماں لاش کو سینے سے لگانے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اہل خانہ اور محلہ جنازے کو سپرد خاک کرنے کے لیے کاندھے پر اٹھاتے ہیں اور قبرستان کی راہ لیتے ہیں۔

تاج بی بی کی عمر قریبا پینتالیس سال ہے، لیکن ابھی سے ہی اس کے چہرے پر جھریاں اور بالوں پر سفیدی نمایاں ہیں، کوئٹہ ہی میں آنکھ کھولنے والی تاج بی بی کی شادی 20 سال کی عمر میں ہوئی، شادی کے کچھ سال بعد ہی آذر نے جنم لیا اور اس سے کچھ ہی سال کے بعد فاطمہ دنیا میں آئی۔ تاج بی بی کبھی سکول نہیں گئی، اور نہ ہی اس نے کوئٹہ کے علاوہ کوئی شہر دیکھا ہے، ٹی وی پر چلنے والی اردو اسے بمشکل سمجھ میں آتی ہوگی۔

یہ تو نہیں معلوم کے تاج بی بی کی آنکھوں میں اپنے لیے کوئی خواب ہیں یا نہیں۔ لیکن آذر کے پیدا ہونے کے بعد ہی تاج بی بی ہر روایتی ماں کی طرح اپنے بیٹے کے خوشحال زندگی کے خواب دیکھتی تھی، شاید دل ہی دل میں وہ، وہ خواب جو وہ اپنے لیے نہ دیکھ پائی تھی، وہ خواب بھی وہ اپنے بیٹے کے توسط سے دیکھنا چاہتی تھی۔ ذہن میں سوال آتا ہے کہ یہ خواب وہ فاطمہ کی آنکھوں سے کیوں نہیں دیکھنا چاہتی ہے؟ شاید اس لیے کہ اندر ہی اندر وہ یہ جاتنی ہے کہ اس معاشرے میں بڑے خواب دیکھنا عورت ذات کے بس کی بات نہیں، اور فاطمہ نے تو کچھ سال بعد ویسے بھی اپنے شوہر کے گھر جانا ہے۔ شاید یہ سوچنا ایک فطری عمل ہے کہ جو کام آپ خود نہیں کرسکتے آپ ہی کے جیسا کوئی دوسرا شخص کیسے کر پائے گا؟

خیر محلے اور خاندان والے جنازے کو دفنا کر واپس فاتح خوانی کے لیے گھر پر آتے ہیں، قریبی رشتے دار اور محلے والے آذر کے گھر والوں سے تعزیت کرتے ہیں، اور یہ کہتے ہوئے چلے جاتے ہیں کہ میں آپکا درد سمجھ سکتا ہوں، ان میں سے کچھ واقعی یہ درد سمجھتے بھی ہیں کیونکہ ان کے اپنے بیٹے اور بیٹیاں اسی قسم کے واقعات میں جوان مرگ ہوئی ہیں، لیکن باقیوں کو یہ بات کہتے ہوئے دل ہی دل میں یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہم یہ درد سمجھتے ہیں، یہ سوچنے کے بعد ان میں اپنے چاہنے والوں کو کھو بیٹھنے کا ایک خوف طاری ہوتا ہے، جسے وہ اپنے اوپر حاوی نہ ہونے کے لیے گھر کے باہر جاکر اپنے جاننے والوں سے کوئی سیاسی موضوعات پر بات کرتا ہے تو کوئی دفتر کے قصے سناتا ہے، اور کوئی کاروبار میں نفع و نقصان کا احوال سناتا ہے۔

بات یہی پر ختم نہیں ہوتی ملک کے دوسرے شہروں سے بھی مذمتی بیانات آتے ہیں، مختلف سیاسی پارٹیاں مذمتی بیانات دیتے ہیں، کچھ انسانی حقوق کے دفاع کار اس پر اظہار افسوس کرتے ہیں۔ جسکا تاج بی بی کو قطعی علم نہیں ہوتا، کیونکہ نہ وہ ٹوئٹر پر موجود ہے اور نہ ہی فیسبک پر، یہاں تک کہ ان کا اس نے کبھی نام بھی نہیں سنا، اسے یہ بھی نہیں پتہ کے خواتین کا عالمی دن کیا چیز ہے، اور نہ ہی وہ فیمینیزم کے معنی اور تیوریوں سے واقف ہے، جسے دنیا برابری کے نام سے جانتی ہے تاج بی بی اس سے بھی واقف نہیں، وہ اتنا جانتی ہے کہ گھر میں کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کرنا اسکا بنیادی فرض ہے، جس کے لیے وہ اپنی نیند، تین وقت کا کھانا اور جو بھی اس کے بس میں ہے سب قربان کرتی ہے،  اس کے علاوہ وہ بس اپنے اور اپنے جیسی ماؤں کے لیے امن چاہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).