گالی شلوار


خوش قسمتی سے میرا جنم ایسے علاقے ( رحیم یار خان) میں ہوا جہاں تین زبانوں یعنی اردو، سرائیکی اور پنجابی کی گالیوں کا خزانہ سنِ شعور میں ہی ہاتھ آ گیا۔ ( گوچشمہِ دشنام سے فیضیابی کے لیے باشعور ہونا ضروری نہیں )۔

دنیا کی ہر زبان میں بیشتر گالیوں کی بنیاد عورت، کمزور طبقات یا پھر ناپسندیدہ جانور ہیں۔ مشتاق یوسفی کے بقول گنتی، گانا اور گالی مادری زبان میں ہی مزہ دیتے ہیں۔ کاش یوسفی صاحب پنجاب پولیس سے بدرجہِ اتم واقف ہوتے تو لگ پتہ جاتا کہ منہ بھر کے گالی دینے اور سننے کا لطف کیا ہے۔

ویسے تو ہر زبان میں گالیاں مسلسل ارتقا پذیر رہتی ہیں مگر پنجابی میں گالیوں کی ایسی شدید تخلیقی گنجائش ہے کہ دیگر زبانیں کم کم ہی تاب لا سکیں۔
مثلاً ایک دن محلے میں شدید گرمیوں کی رات اچانک بجلی چلی گئی تو پڑوس سے نیند میں ڈوبی ایک دشنامی بد دعا اندھیرے میں گونج گئی ”اوئے واپڈا والو تہاڈی بہن نوں رشتہ نصیب نہ ہووے ‘‘۔

اور پھر علاقائی ورائٹیز بھی ہیں۔ جیسے خواجہ آصف کے سیالکوٹ میں کسی بھی ناقابل ِ رسائی یا ناپسندیدہ عورت کو ٹریکٹر ٹرالی کہنے کا وہی مقام ہے جو باقی پنجاب میں ٹیکسی اور سندھ میں گھوڑی کا ہے۔ اردو دانوں نے گشتی کے ساتھ سفیر، شفاخانہ اور پولیس کا لاحقہ جوڑ کے اس کا دف مار دیا۔

گالی محض غصے یا نفرت کا نہیں پسندیدگی کا بھی استعارہ ہے۔ میں نے اکثر لنگوٹیوں کو مدت بعد اچانک کسی موڑ پر جپھی ڈالتے ہوئے سنا ہے ” اوئے حرامی تو کہاں مر گیا تھا ‘‘۔ ۔ ۔

کسی بھی منافق سماج میں کسی بھی مرد کا عورت کو گالی کے طور پر برتنا معمول کی بات ہے البتہ وہی مردانہ گالی کسی عورت کے منہ سے پھسل جائے تو اس کا کردار مزید مشکوک ہوجاتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ گالی چونکہ خالص مردانہ ایجاد ہے لہذا گلیاری خواتین بھی اپنا ردِعمل انھی زن دشمن لفظیات میں ظاہر کرنے پر مجبور ہیں۔

گالی کی لفظیات تہذیبی و ارتقائی ڈی این اے کا بھی پتہ دیتی ہے۔ نثر و شاعری میں گالیوں کا استعمال ضرورتِ شعری و کردار نگاری کے لیے قابلِ برداشت سمجھا جاتا ہے۔ میر صاحب کے ہاں ہجو میں رقیب کو ننگی ننگی گالیوں سے نوازنا ادبی اعتبار سے مباح گردانا گیا ہے۔ غالب جب کہتے ہیں کہ کون بھڑوا رہا ہوا ہے۔ گورے کی قید سے چھوٹا تو کالے (خان) کی قید میں آ گیا۔ یا پھر سعادت حسن منٹو، عبداللہ حسین اپنے کرداروں کو اجاگر کرنے کے لیے ان کرداروں کی دھڑم دھکیل زبان کو نشتر بنانے سے نہیں چوکتے تو اسے فنی ضرورت کے رعایتی خانے میں رکھا جاتا ہے اور رکھا جانا بھی چاہیے۔ بالکل ایسے جیسے ڈکشنری میں گالیاں اور ان کا مفہوم جانکاری کے تناظر میں ضروری سمجھا جاتا ہے۔

تاہم اعتراض تب شروع ہوتا ہے جب بلا جواز برسرِ عام پبلک فورم پر زبانی، تحریری و اشاراتی انداز میں اس جذبے سے گالی دی جائے کہ جس سے سامنے والے کی ذلت مقصود ہو۔ ایک عام آدمی کے منہ سے گالی نکلنے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ گنوار کی گالی ہنس کے ٹالی۔ لیکن جب کوئی ممتاز شخصیت، رہنما یا عالم عامیانہ زبان استعمال کرتا ہے تو پھر اس کا ہر کوئی نوٹس لیتا ہے اور لینا بھی چاہیے۔

ہم لوگ دن میں دس بار کسی کو چڑیل کہتے رہیں تو اس کا اثر اگر ہوگا بھی تو محدود ہوگا۔ لیکن جب ایوب خان مخالف صدارتی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کے لیے غدار، بھارتی ایجنٹ اور چڑیل جیسے القابات استعمال کریں گے تو وہ تاریخ کا حصہ ضرور بنیں گے۔

پھر مزید ترقی بھٹو دور میں ہوئی اور بات ” چوہے، سور کے بچے، ہیجڑے، ڈبل بیرل خان، کانے اور گنجے کے سر پے ہل چلے گا تک پہنچ گئی۔

البتہ اب سے تیس پینتیس برس پہلے تک اتنا عمومی خیال ضرور رکھا جاتا تھا کہ گالی بھلے عورت کی دی جائے مگر عورت کو نہ دی جائے اور پارلیمنٹ میں تو بطورِ خاص احتیاط برتی جائے۔ مگر یہ تکلف شیخ رشید احمد وغیرہ نے ختم کردیا اور انھوں نے اپنے پارلیمانی خطابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذات کو بھی نہیں بخشا۔

پرویز مشرف نے اس صنفِ کثیف کو یہ فرما کر درجہِ کمال تک پہنچایا کہ عورتیں جان بوجھ کر ریپ کراتی ہیں تاکہ بیرونِ ملک شہریت حاصل کر سکیں۔

آج یہ حال ہے کہ گالی مقام اور صنف کی قید سے آزاد ہے۔ الطاف حسین، عمران خان، شہباز شریف، فضل الرحمان، رانا ثنا اللہ، عابد شیر علی، ذوالفقار مرزا، کچھ معزز ٹی وی اینکرز و سینئر صحافی و کالم نگار غرض کون ہے جس نے موقع ملنے پر کسی جلسے میں، کنٹینر پر، ٹاک شو یا عمومی مجلس میں خواتین و حضرات کے تعلق سے زومعنویت یا دشنامی لوٹے سے اپنی اور دوسروں کی شلواریں نہیں دھوئیں۔

ممتاز قادری کی قربانی کا جھنڈا اٹھانے کی دعوے دار مذہبی قیادت سوشل میڈیا کے طفیل جس طرح اپنے ہی گلیارے بوجھ تلے دب گئی اس نے رہی سہی پاکیزگی بھی کھول کے رکھ دی۔

وہ زمانہ گیا جب گالی سن کے شریف آدمی کہتا تھا ”ارے صاحب چھوڑئیے جاہل کے منہ کیا لگنا۔ خامخواہ ہم اپنی زبان گندی کیوں کریں“۔ آج تو ایک سن کے دس لوٹانے کا زمانہ ہے۔ چڑھ جاؤ اس سے پہلے کہ سامنے والا چڑھ دوڑے۔

نہیں ہے تلخ گوئی شیوہِ سنجیدگاں لیکن
مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں
(شعور )

ہمارے سماج میں جب تک ہر اچھی بری بات پر شاباشی پانے کے عادی بچے کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں لفظ گالی ہے تب تک وہ بالغ ہو چکا ہوتا ہے۔ لہذا باقی زندگی وہ مہذب کہلوانے کے چکر میں اسی پل صراط پر جھولتا رہتا ہے کہ اپنے ردِعمل کا بلا گالی اظہار کیسے کرے۔

لیکن لاکھ چھپانے پر بھی کبھی نہ کبھی تو پتہ چل ہی جاتا ہے کہ سوٹ ٹائی میں ملبوس خواجہ آصف ایم این اے اور شرعی صافہ بردار سینیٹر مولانا حمداللہ اندر سے وہی تو ہیں جو ہم سب ہیں۔

14 جون 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).