عورتوں کے مسائل اور ہماری اجتماعی بددیانتی


جنسی ہراسانی کے مدعے کو ہمارے ہاں یا تو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا جاتا یا پھر اس ہراسانی کا شکار ہونے والے یا اس کی نشاندہی کرنے والے افراد پر بے حیائی کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر اس موضوع کو “بے حیائی” اور اس مذموم عمل کو ” بے راہ روی” کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر عورت جنسی طور ہر ہراساں ہونے کی شکایت کرے تو اس کی تمام ذمہ داری اس کے “بے حیا” یا “باپردہ” نہ ہونے پر ڈالتے ہوئے تمام تر برائی کا ذمہ دار اس کو ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کو مغربی تہذیب کے پھیلائی گئی “بے حیائی ” کے زمرے میں ڈال کر سیلف ڈینائیل (شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے رہنا) میں رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ کریٹیکل تھنکنگ (تنقیدی شعور) کو حرام تصور کیا جاتا ہے اس لئے معاشرے میں بسنے والے زیادہ تر ادیب یا دانشور بھی اکثریت کی رائے سے متصادم موضوعات کو یا تو چھیڑنے سے ہی گریز کرتے ہیں یا پھر ایک “قابل فروخت” اسلوب اور گفتار کو اپناتے ہوئے ایسے موضوعات پر لکھتے وقت لکیر کے فقیر کی مانند صرف مقبولیت یا تائید حاصل کرنے کیلئے “حیا” اور “غیرت” کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے تمام خواتین و حضرات کا نظریہ یا عقیدہ کچھ یوں ہے کہ ہم ایک “مافوق الفطرت” قوم ہیں جو نہ تو کسی بھی بشری گناہ کا مرتکب ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی بھی قسم کی غلطی کا ارتکاب کر سکتی ہے۔ ہمارے ہاں تمام برائیاں مغرب کی پھیلائی ہوئی ہیں اور ہمارے فکری و نظریاتی قحط الرجال کا دوش بھی مغرب کو جاتا ہے۔

عورت کو “غیرت”، تہذیی جمود و اسلاف پرستی کے مرض کو “امت مسلمہ کے خلاف سازش” قرار دینے کی یہ سوچ پھیلانے میں جہاں ہمارے فرسودہ بیانیوں کا کلیدی کردار ہے وہیں ہمارے معاشرے میں بسنے والے ادیب اور دانشور بھی اس میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ایک ادیب یا دانشور کا کام سماجی نا انصافیوں فکری گراوٹ اور عصر حاضر کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے سوچ کے نئے زاویے فراہم کرنا ہوتا ہے تا کہ معاشرے میں بسنے والے عام افراد کی توجہ ان مسائل کی جانب مرکوز کروائی جا سکے یا یوں کہئیے کہ ایک ادیب، لکھاری یا دانشور کا کام آئینہ دکھانے کا ہوتا ہے نا کہ قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نرگسیت کی پٹی باندھ کر داد سمیٹنے کا ہوتا ہے۔

منٹو نے اس بارے میں بہت خوب فرمایا تھا کہ “میں اس سوسائٹی کو کپڑے کیا پہناوں گا جو پہلے سے ہی ننگی ہے۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا کیونکہ یہ درزیوں کا کام ہے میرا کام نہیں ہے” ۔ معاشرتی برائیوں یا سماجی مدعوں پر بات کرنا، ان کے بارے میں تحریر کرنا ان کی نشاندہی کرنا چونکہ سماج کے مجموعی نظریات اور روایات سے متصادم ہوتا ہے اس لئیے دانشور یا ادیب اس کے بجائے سہل پسند راستے کا انتخاب کرتے ہوئے ان موضوعات سے نہ صرف چشم پوشی اختیار کرتے ہیں بلکہ سماج میں قبولیت و پسندیدگی کی اسناد حاصل کرنے اور ریٹنگ لینے کے واسطے ان مسائل کو یا تو سرے سے سماج کا مسئلہ تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں یا پھر ان کو بیرونی دنیا کی مسلط کردہ بیمارہاں اور سازشیں قرار دیکر عوام الناس کو شتر مرغ کی مانند ریت میں منہ چھپا کر جینے کا درس دیتے ہیں۔

دیگر تمام شعبہ جات کی مانند ان ادیبوں اور دانشوروں نے خواتین اور بچیوں دوارے بھی ایک صدیوں پرانا فرسودہ نظریہ اور ایک عجیب و غریب تصور قائم کر رکھا ہے۔ مثال کے طور پر ناولوں افسانوں ڈراموں کی ہیروئن یا مثالی خاتون وہ ہوتی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کو تقدیر کا فیصلہ سمجھتی ہے مرد کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہے۔ اکثر و بیشتر جنسی ہراسانی کرنے والے مرد یا فلرٹ قسم کے مرد کے کیریکٹر سے عشق کر بیٹھتی ہے۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد شادی کر کے بچے پیدا کرنا ہوتا ہے۔ عمیرہ احمد، نمرہ احمد اور ان کی طرز کی کئی خواتین لکھاریوں نے افسانوں ڈراموں اور ناولوں کے ذریعے اس تصور کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح کالم لکھنے والے صحافی بھی اکثر و بیشتر جنسی زیادتی کی وجہ عورت کے آزادانہ رجحانات کو قرار دیتے ہیں اور اکثر و بیشتر خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے والوں کو بیرونی دنیا کا ایجنٹ یا بے راہ روی کا شکار قرار دیتے ہیں۔ معاشرے کی مجموعی سوچ کے خلاف کچھ بولنے یا لکھنے سے اس لئیے اجتناب کرنا کہ یہ قبولیت کی سند نہیں عطا کرے گا یا پھر ریٹنگ کی لالچ کے پیچھے بھاگنا دانشوروں کا کام نہیں ہوا کرتا۔ جو افراد محض قبولیت اور ریٹنگ کی سند یا پھر اپنے ذاتی عقائد کی بنیاد پر سچائیوں یا حقیقتوں کو مسخ کرتے ہیں۔ وہ ایک اچھے سیلز مین تو ہو سکتے ہیں۔ الفاظ کی تجارت کرنے والے سوداگر تو ہو سکتے ہیں لیکن دانشور یا ادیب نہیں کہلا سکتے۔

ہم نے بے حیائی کا جو خود ساختہ تصور قائم کر رکھا ہے اس کی منطق بھی نرالی ہے۔ اس منطق کے مطابق عورت اگر اپنے بال کٹوا کر چھوٹے کرے گی تو وہ بے حیا کہلائے گی۔ جینز پہنے گی تو بے حیا۔ کسی سے محبت کر بیٹھے گی تو بے حیا۔ غرض بے حیائی کی تمام تانیں ہمارے معاشرے میں عورت پر آ کر ٹوٹتی ہیں۔ اگر بچیاں اپنے جنسی مسائل پر یا جنسی ہراسانی کے خلاف بات کریں تو بھی بے حیا کہلاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس معاشرے میں ہر گلی اور ہر شہر کی دیواریں مردانہ کمزوری کے علاج کے اشتہارات اور شہوانی لذت حاصل کرنے کیلئے مختلف حکیمی نسخوں کے اشتہارات سے بھری پڑی ہوں وہاں عورت کے جنسی مسائل پر بات کیوں نہیں ہو سکتی؟

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے روایات، تعلیمات اور علم و ادب کی ترویج کی آڑ میں مردانگی کو عورت کی کمزوری سے مشروط کر رکھا ہے اور جونہی کہیں عورت ہمیں اپنے سے مضبوط یا طاقتور دکھائی دے تو فورا دین یا روایات کا لبادہ اوڑھ کر اپنی مردانہ کمزوری کا علاج ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ یہ حاکم محکوم کا خود ساختہ رشتہ جو ہم نے اس سماج میں عورت اور مرد کے مابین قائم کر رکھا ہے دراصل اس میں اب داڑیں پڑنا شروع ہو چکی ہیں۔ کیونکہ اب بچیاں باندیاں بن کر جینے سے انکار کر رہی ہیں۔ انہیں اپنے وجود کی اہمیت اور قدرومنزلت کا بخوبی اندازہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ معاشرے میں رونما ہونے والی یہ تبدیلی قدامت پسندوں، روایات کے علمبرداروں اور ٹھیکیداروں کو ہرگز بھی ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ اس لیئے “بے حیائی” کی گردان الاپ کر مردوں کا تسلط قائم رکھنے کی اور عورتوں کو لونڈیاں تصور کرنے کی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر خواتین کا اپنے جنسی مسائل پر گفتگو کرنا بے حیائی ہے تو پھر مردوں کا جنسی معاملات پر کھلے عام اشتہارات دینا کیا ہے؟ ایک ایک گھنٹے کے ٹاک شوز لونڈیاں رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں جیسے موضوعات پر منعقد کرنا کون سی حیا ہے۔ کیبل ٹی وی ریڈیو پر پروگرامز اور اخبارات میں لمبے چوڑے اشتہارات کے زریعے مردوں کے عضو تناسل کو مضبوط و توانا رکھنے کے اشتہارات کونسی حیا کے زمرے میں آتے ہیں؟ شادی کیلئے جہیز سے لیکر گاڑی کی خواہشات کا اظہار کون سی حیا ہے؟ بیوی کو گھر میں پردے کی اہمیت پر گھنٹوں لیکچر دے کر خود پرائی خواتین کو کھا جانے والی نظروں سے گھورنا کہاں کی حیا ہے؟ بہن کو گھر میں رہنے اور موبائل اور انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے کی تلقین کرتے رہ کر خود فیس بک پر دوسری لڑکیوں کی آئی ڈیز پر چھچورے قسم کے پیغامات بھیجنا اور ان کے نمبر مانگنا کیا حیا ہے؟ سنی لیون کی تصاویر اور وڈیوز کو جنسی بھیڑیوں کی طرح کمپیوٹر کی سکرین میں ہی کھا جانے والی نظروں سے دیکھنا کیا حیا ہوتی ہے؟

ایسا نہیں ہو سکتا کہ پروردگار عالم میرے اور آپ کیلئے اخلاقیات کے الگ معیار بنائے اور خواتین کیلئے الگ۔ یہ ہمارے معاشرے کا کھوکھلا رویہ ہے جو ایسی منافقت اور کمزوری کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔ بے حیائی یہ بھی ہے کہ اپنی شہوانی لذتوں کی تکمیل یا حصول کیلئے صرف مذہب کی ان باتوں کو دلیل بنایا جائے جو ان خواہشات پر پورا اترتی ہیں اور ویسے روز مرہ معاملات زندگی میں مذہب کی تعلیمات سے منہ موڑ کر جیا جائے۔ بے حیائی یہ بھی ہے کہ گھنٹوں ناف سے نیچے ناڑا باندھنے کے موضوعات پر مناظرے کیئے جائیں لیکن خواتین پر تشدد یا ان سے جنسی و اخلاقی زیادتی کے موضوعات کو وطن دشمنی اور مذہب دشمنی قرار دیکر ان جرائم سے چشم پوشی اختیار کی جائے۔ بے حیائی یہ بھی ہے کہ مباشرت کے موضوعات پر ہزارہا کتب لکھی جائیں اور ان کے پڑھنے والے قارئین کی تعداد لاتعداد ہو لیکن بچیوں کو درپیش مسائل کو نظام تعلیم میں بطور نصاب کے نافذ کرنے کے خلاف نعرے لگائے جائیں۔ بے حیائی یہ بھی ہے کہ نجی محفلوں میں مجرا بھی دیکھا جائے کوٹھوں پر سیکس ورکر سے لذت بھی حاصل کی جائے یا انٹرنیٹ کمپیوٹر اور ڈی وی ڈیز پر بلیو فلمیں دیکھی جائیں اور پھر زور و شور سے دوسروں کو پردہ اور حیا کی اہمیت پر لیکچر دیئے جائیں۔ حیا کا دن منایا جائے۔

بے حیائی یہ بھی ہے کہ بچیوں کو سکول کالج یونیورسٹیوں یا دفاتر میں جاتے ہوئے طنز و تنقید کا نشانہ بنا کر انہیں بے حیا کہا جائے اور پھر خود انہی تعلیم یافتہ خواتین سے اپنے بچوں کی شادی کا ارمان بھی رکھا جائے۔ ٹھیک جیسے ہمیں لفظ “غیرت” کی تشریح دوبارہ کرنے کی ازسر نو ضرورت ہے ویسے ہی لفظ “بے حیائی ” بھی ہماری توجہ اور اپنی تشریح کا شدت سے طالب ہے۔ اگر تو اس لفظ کو بھی “قومی وقار” اور “غیرت” کی مانند اپنے اپنے تعصب کی عینک لگا کر دیکھنا ہے تو پھر اس لفظ “بے حیائی ” کے معنوں میں ہمیں حسب ضرورت” اور “حسب مفاد” کے دو الفاظ لکھ دینا چائیں۔ بچیوں کی جسمانی بلوغت اور جنسی مسائل پر بات کرنے سے جس معاشرے کو معاشرتی اقدار کمزور ہوتی دکھائی دیں وہ معاشرہ واقعی میں “کمزوریوں” کا شکار ہے۔ ان”کمزوریوں” کی نوعیت “مردانہ” بھی ہے اور “بچگانہ ” بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہی دونوں کمزوریوں سے متعلق اشتہارات کی تعداد اور ان کمزوریوں کے علاج سے کمائی جانے والی رقم کسی بھی قسم کے دوسرے اشتہارات اور علاج کی بہ نسبت زیادہ ہے۔

وہ خواتین و حضرات جو قلم یا مائیک کی آڑ میں محض آسائشات، نام و نسب اور ریٹنگ کیلئے بھاگتے پھرتے ہیں ان کی ادبی و صحافتی بے ایمانی اور نرگسیت پسندی کی قیمت میری اور آپ کی بچیوں کو ایک ایسی زندگی بتانے کی صورت میں ادا کرنی ہڑتی ہے جو نہ تو قانون فطرت کے مطابق ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی منشا اور مرضی کے مطابق۔ ہم خواتین اور بچیوں کے ساتھ ناروا سلوک برتے جانے اور ان کو کمتر سمجھنے کی سماجی برائیوں کا دوش شدت پسندوں اور مولویوں کو تو دیتے ہیں لیکن دانشوررں، لکھاریوں صحافتی ناخداوں کے اس جرم میں برابر کا شریک ہونے کی حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں۔ انٹیلیکچوئل بددیانتی سے بھیانک جرم کوئی بھی نہیں ہوا کرتا کہ اس کی وجہ سے سماج میں فرسودہ روایات اور نظریات کو مزید تقویت ملتی ہے اور ایسے اذہان پیدا ہوتے ہیں جوعصر حاضر کے تقاضوں سے نبٹنے کے بجائے نرگسیت پسندی اور اسلاف پرستی کے موذی مرض میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگر آپ روایات یا فرسودہ خیالات کو چیلنج نہیں کر سکتے تو کم سے کم جھوٹ اور دروغ گوئی کا سہارا لے کر اذہان کو بنجر بنانے کا کھیل مت کھیلئے اور جو افراد خواتین کے حقیقی مسائل یا دیگر سماجی مسائل پر آواز بلند کرتے ہیں انہیں دلیل کی قوت سے رد کرنے کا ہنر ہیدا کریں نا کہ ان کی تحقیر کر کے یا روایات اور عقائد کو ڈھال بنا کر۔ خواتین کے معاملات میں دانشوارانہ بددیانتی کا یہ سلسلہ اب بند ہونا چائیے تا کہ وہ بھی معاشرے میں اہنے وجود کی حقیقت کو منواتے ہوئے ایک متوازن زندگی بسر کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).