آئیے، عورت سے اذنِ سفر مانگیں!


آج عورتوں کا عالمی دن ہے، آئیے عورت کی تکریم کریں، عورت سے اذنِ سفر مانگیں!!

“نصیر احمد ناصر! آپ نے نہ صرف ہمارے سماج بلکہ کئی معاشروں میں ذلت و رسوائی کی پستی میں دھنسی ہوئی عورت کو سر خم کر کے دیکھا ہے۔ آپ نے عورت کو وہ مقام دیا ہے جو شاید لاکھوں لفظ لکھنے والے، تنظیمیں بنانے والے اور آزادی نسواں کے علمبردار اسے ابھی تک نہیں دے سکے۔ آج سے قبل لاکھوں کروڑوں لوگ دانستہ یا نادانستہ سفر اختیار کرتے رہے ہیں ۔۔۔۔۔ خواہ جبری طور پر سہی ۔۔۔۔۔۔ مگر سب کو اپنے ہی زخموں کا تریاق لانا تھا، اپنے ہی زخم رفو کرنے تھے، اپنے ہی دکھوں پر مرہم رکھنا تھا۔ آپ نے کیسا سفر اختیار کیا ہے۔۔۔! ناقابلِ یقین، حیرت انگیز، خواب سا۔۔۔ یہ لفظوں کی ادائیگی لبوں سے نہیں ہوئی، یہ لفظ ہوا نے پھول کی نازک پنکھڑی پہ رقم کیے ہیں۔ ”فشارِ وقت” آپ کا راستہ نہیں روک سکتا۔ مگر تریاق؟ کن سفاک جزیروں میں قید ہے؟ یہ انجان دیس، یہ بے سمت منزلیں، یہ روٹھے راستے۔۔۔ یہی ہے نا زادِ سفر۔۔۔۔ کیا آپ کو یہ مہم جوئی اختیار کرنے دی جائے؟ اب میں قلم سے اصرار نہیں کر سکتی۔ ان جذبات کو کیا کہوں، یہ تو سیدھا راستہ جانتے ہیں۔ وہاں وار کرتے ہیں جہاں سے قطرہ قطرہ آنسو دل کی راکھ میں چھپی چنگاری کو فروزاں کر دیتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے! کیا کمال ہے! ناصر صاحب! اس نظم میں روح کی سچائی ہے۔ یہ وہ جذبے ہیں جو جسم، دل، آنکھوں اور ذہن کے مسلسل سلگنے سے عطا ہوتے ہیں۔ ہر مصرعہ دامن پکڑتا ہے، ہر لفظ اپنی گرہ میں باندھتا ہے۔۔۔ ایسی بے چینی، بے کلی، کرب، التجا اور دعا۔۔۔۔ جیسے تنہائی میں میرا دل چیخ اٹھا ہو۔۔۔ یہ لفظ اس تنظیم سے نہ سہی، بکھری صورت ہی سہی مگر میرے اندر کہیں منڈلا رہے تھے۔ مگر انہیں اس تسلسل کا روپ دینا نصیر احمد ناصر کو ہی زیبا ہے۔ “مجھے اک لفظ لکھنے کی سعادت دے” نہ جانے کتنے بول، کتنے گیت، کتنے الفاظ اس “اک لفظ” کی عظمت کے معترف ہو گئے ہیں۔۔۔ کوئی ایک لفظ اتنا معتبر کیسے ہو جاتا ہے کہ ادائیگی میں کون و مکاں حائل ہو جاتے ہیں، آسماں سجدہ ریز ہو جاتا ہے، زمیں سبک ہو جاتی ہے، فضائیں خوشبو سینت کر اڑی اڑی پھرتی ہیں۔” (شہناز شورو)

مجھے اذنِ سفر دے مہرباں عورت!
میں عمروں کا تھکا ہارا مسافر ہوِں،
تِری چھتنار چھاؤں میں
چلا آیا ہوں پل بھر کے لیے
اگلا سفر مجھ کو صدائیں دے رہا ہے
راستے پھر سے مجھے آواز دیتے ہیں

مجھے اپنے دکھوں کی بے کرانی سے
نجاتِ کرب کا اک پَل،
فقط اک پَل عنایت کر
میں اپنی عمر کی ساری اداسی
ڈھیر کر دوں گا تِرے شفاف قدموں میں!

مجھے اپنی محبت کے سمندر سے
فقط دو چار اشکوں کی رطوبت دے
کہیں سے ٹوٹ کر بکھری ہوئی
اپنی کہانی میں
مجھے اک لفظ لکھنے کی سعادت دے
مجھے وہ خواب چننے کی اجازت دے
جو بِن دیکھے تری آنکھوں میں بکھرے ہیں!

میں اپنا جسم اوڑھے کب سے بیٹھا ہوں
مجھے پہچان، مجھ کو آشنائی دے
مجھے قیدِ بدن سے اب رہائی دے
مجھے لمبی جدائی دے
مجھے اُس ہجر لمحے کی بشارت دے
جو مِلتا ہے
ابد کے اُس کنارے سے
کسی روشن ستارے سے
زمینی خواہشوں سے ماورا کر دے
مجھے اپنے دکھوں کی انتہا کر دے
مِرے اگلے سفر کی ابتدا کر دے!

مجھے زادِ سفر دے کر
خود اپنے ہاتھ سے رخصت بھی کر
انجان دیسوں کی طرف
اُن منزلوں کی سمت
جن سے راستے کترا کے چلتے ہیں
مجھے جلدی ہے، جانا ہے
تِرے ہر درد کا تریاق لانا ہے
فشارِ وقت سے پہلے مجھے واپس بھی آنا ہے
سفر آغاز کرنے دے مجھے اے مہرباں عورت!

(نصیر احمد ناصر، نظم “سفر مجھ کو صدائیں دے رہا ہے” ، 1994ء)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).