عوامی شخصیات کی نجی زندگی جاننا عوام کا حق ہے


عمران خان کی تیسری شادی کے بارے میں جنگ / دی نیوز میں شائع خبر نے بڑی شدید بحث کو جنم دیا۔ زیادہ تر یہ بحث سوشل میڈیا پر ہوئی۔ موضوع ان کے نکاح کی تاریخ کے باے میں متضاد دعوئوں کے حو الے سے تھا۔ جنگ / دی نیوز نے 6 جنوری 2018ء کو سب سے پہلے خبر دی تھی کہ تحریک انصاف کے چیئرمین نے یکم جنوری کواپنی روحانی رہنما اور 5 بچوں کی ماں سے شادی کرلی ہے۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد عمران خان نے تاخیر سے 48؍ گھنٹے بعد نہ صرف تردید جاری کی بلکہ خبردینے والے اس نمائندے کے خلاف پیمرا اور پریس کونسل آف پاکستان میں بدنیتی پر مبنی بے بنیاد رپورٹ کی شکایت بھی کی۔ اس کے علاوہ گزشتہ 18 فروری کو عمران نے ایک اور تقریب منعقد کی، اس کی تصاویر جاری کیں، تاثر یہ دیا جیسے نکاح یکم جنوری نہیں بلکہ اسی دن ہوا ہو۔ دی نیوز نے یہ ثابت کرنے کے لئے دوسری تقریب ایک بہانہ تھی، خاصی شہادتیں جمع کیں۔ اخبار کے دعوے کے مطابق شادی پہلے ہی ہوچکی تھی۔ یہ بات دوسری خبرکی بنیاد بنی جس کی ابھی تک کوئی تردید نہیں کی گئی۔

ہمارے خیال میں عمران خان کے پایہ کی سیاسی شخصیت جو وزیراعظم بننے کے خواہش مند ہیں،انہیں جھوٹے دعوئوں پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔ خبر غلط ہونے کی صورت میں اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر ہوتا۔ اس کے بجائے کیچڑ اچھالنے شروع کردی گئی تاکہ ایک عوامی شخصیت کی نجی زندگی میں دراندازی کی مذمت کی جائے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ کی مزید حوصلہ افزائی کی گئی جب خبر پر نامی گرامی اینکرز اور تجزیہ کاروں نے تنقید کی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی خبر کو چیلنج نہیں کیا بلکہ نیت کو ہدف بنایا۔ عوامی شخصیت کی نجی زندگی میں دراندازی پر سوال اٹھایا۔ مجھ پر الزام لگا کہ میں نے ایک خاتون کو صرف اس لئے اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کی کیونکہ اس نے ایک مشہور آدمی سے شادی کی۔ ایک انگریزی اخبار نے اس پر اداریہ تحریر کیا جس میں اس نمائندے کے خلاف پی ٹی آئی سوشل میڈیا کی بدنام کرنے کی مہم کی مذمت کی گئی۔ اس میں خبر کے میرٹ پر ہونے کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا گیا۔

اول تو ایک صحافی کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ حقائق سامنے لائے، جھوٹ کو بے نقاب کرنا نہیں بلکہ چھپانا جرم ہے۔ جعلی خبر اور جھوٹے دعوے بدقسمتی سے دنیا میں معمول بن گئے ہیں۔ حقائق کی جانچ پڑتال کے لئے یورپ اور امریکا میں میڈیا ہائوسز نے سیکشن بنا دیئے ہیں اس کے لئے غیر منافع بخش تنظیمیں قائم کی گئیں۔ پلیٹزر انعام یافتہ واشنگٹن کی تنظیم ’’پولیٹی فیکٹ‘‘ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2017ء کا ’’لائز آف دی ایئر‘‘ ایوارڈ دیا۔ دنیا میں ایسی 150؍ تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن پاکستان میں ایسی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ پاکستان میں میڈیا تک ’’اس نے کہا، اس نے کہا‘‘ تک محدود ہے۔

اسکینڈل خبر پر دوسرا سوال جو اٹھتا ہے کہ آپ نے عمران خان کے خلاف خبر کیوں دی؟ کسی اور سیاسی شخصیت کے خلاف کیوں نہیں گئے؟ حالانکہ سوال خبر کے درست یا غلط کے حوالے سے ہونا چاہئے۔ لگتا ہے ہم کوٹہ سسٹم پر یقین رکھتے ہیں جیسے کوئی دیگر سیاست دانوں کے خلاف بھی ایسی خبریں جمع کرنے کا پابند ہے۔ چاہے وہ درست یا جھوٹی ہوں۔ تحریک انصاف کو چاہئے وہ مجھے عدالت لے جائے۔ خبر ثابت کرنے کا بوجھ مجھ پر ہوگا اور میں ثابت کروں گا۔

زیر بحث خبر کی جانب واپس آتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کی میرے خلاف شکایت پیمرا میں زیر التوا ہے۔ کیا مجھے اسے سچ ثابت کرنے کا حق نہیں؟ مجھے اس حق سے محروم کرنا نا انصافی ہوگی۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کوئی رپورٹر (اینکر یا تجزیہ کار نہیں) اسے دستیاب مستند معلومات پر مبنی خبر چھوڑ سکتا ہو۔ یہ سامنے رکھتے ہوئے کہ میرے خلاف کوئی مقدمہ بازی نہیں ہے۔ ہمیں قارئین کو یہ یاد نہیں دلانا چاہئے کہ رہنما کس طرح سے جھوٹ بولتے اور عوام فرینڈلی میڈیاکی موجودگی میں بڑی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ اگر کوئی اپنا کام نہیں کرتا تو ہم بھی ان کی پیروی کے پابند نہیں۔

اسی طرح خبرکا ڈسپلے نفس موضوع کا فیصلہ ایک سے دوسرے اخبار اور ایڈیٹر تک مختلف ہوتا ہے۔ جانچ پڑتال یا چھان بین میں توجہ اس حقائق کی سچائی پر مرکوز ہونی چاہئے۔ جو کسی میڈیا ہائوس کا کلیدی فرض ہے۔ نکاح خواں مفتی سعید کا انکشاف کہ انہیں میڈیا کو نکاح کی درست تاریخ نہ بتانے کی درخواست کی گئی تھی۔ مخصوص حلقوں کی جانب سے تیسری تنقید اس دلیل میں غیر موثر ہوجاتی ہے کہ خاتون (دلہن) کو غیر ضروری طور پر اسکینڈلائز کیا گیا۔ میں سوچتا ہوں کوئی رپورٹر ان کی بیوی کا ذکر کئے بغیر شادی کے بارے میں کیسے بتا سکتا ہے؟ عمران سے شادی ان کی دلہن ہی کا فیصلہ تھا۔ خبر دینا ہمارا حق تھا۔ کیونکہ عمران کی سیاسی فیصلہ سازی پر ان کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ عمران خان نے جہانگیر ترین کو بتایا تھا کہ انہوں نے انتخابات جیتنے کے لئے اس خاتون سے شادی کی جس سے ظاہر ہوتا ہے مستقبل کے وزیراعظم کے فیصلوں پر ان کا کتنا اثر ہے۔ ہمارا چیلنج اس کے مستند ہونے کو ثابت کرنا ہے اور ہم بخوشی کریں گے۔

چوتھی اور آخری بات کہ کسی کو بھی عوامی شخصیت کی نجی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ نقاد ایسا کہتے ہیں جب ان کے پاس دلائل نہیں رہتے ۔ جواب بڑا سادہ ہے۔ عوامی شخصیات اپنا تاثر بنانے کے لئے میڈیا کے ذریعہ ہی پیغام پھیلاتے ہیں۔ ایسے میں وہ بخوشی اپنی نجی تفصیلات بھی بٹاتے ہیں تاہم وہ کسی ایسی تفصیل کی اشاعت نہیں چاہتے جو ان کے تاثر کے لئے نقصان دہ ہو۔اس کے لئے وہ ’’پرائیویسی‘‘ کی آڑ لیتے ہیں۔ میڈیا نہ صرف نشر واشاعت کا ذریعہ ہے بلکہ ’’واچ ڈاگ‘‘ کا بھی کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا کسی کی پرائیویسی میں کس حد تک دخل اندازی کرسکتا ہے۔ یہ بات متنازع فیہ ہے۔ اس کی حدود مختلف اخبارات کی پالیسیوں کے مطابق مختلف ہیں۔ ٹیبلائیڈز مشہور شخصیات تک مخصوص ہوتے ہیں۔ سنجیدہ اخبارات مشہور شخصیات کے بارے میں معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخاب کی مہم کے دروان جنسی اسکینڈلز میں پکڑے گئے۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور سی این این نے خبریں شائع اور نشر کیں یہ تینوں صحافتی درسگاہوں میں اعلیٰ معیار کے عملبردار تصور کئے جاتے ہیں۔ ٹرمپ نے ان خبروں کو جعلی قرار دیا اب کیا انہیں ٹرمپ کے خلاف خبریں دینا بند کردینا چاہئے کیونکہ مخصوص حلقے سمجھتے ہیں کہ ان کا ٹرمپ کے خلاف ایجنڈا ہے۔

ایک اور مثال گولفر ٹائیگروڈ کی ہے جو کوئی سیاسی شخصیت نہیں ہے لیکن اپنے کھیل گولف کے حوالے سے سند کا درجہ رکھتا ہے اس کی شہرت اس وقت داغدار ہوئی جب اس کی اپنی بیوی سے بے وفائی کی خبریں سامنے آئیں۔ اس کے مختلف عورتوں سے معاشقے چلتے رہے لوگوں کو یہ سب کچھ میڈیا کے ذریعہ ہی معلوم ہوا۔ عمران خان کے معاملے میں وہ ٹرمپ ہی کی طرح پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب کے لئے کوشاں ہیں وہ ٹائیگر وڈ ہی کی طرح مسلمہ کھلاڑی اور رول ماڈل رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).