’یہ ستارے آسمان پہ نہیں ملتے بھئی‘


ٹی 20 کا دوسرا ورلڈ کپ جاری تھا۔ پاکستان پچھلے ایونٹ کے رنر اپ کی حیثیت سے ٹورنامنٹ میں داخل ہوا۔ ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے وسیم اکرم کہہ رہے تھے کہ پاکستان اور انڈیا ٹائٹل کے لیے فیورٹ ہیں لیکن جب ٹورنامنٹ شروع ہوا تو پاکستان پہلا ہی میچ ہار گیا۔

جب پاکستان اپنے پہلے تین میں سے دو میچ ہار چکا تو اگلے مرحلے تک رسائی خاصی دشوار نظر آ رہی تھی لیکن جونہی پاکستان نے سیمی فائنل میں جگہ بنائی تو اعجاز احمد نے دعویٰ کر ڈالا کہ یہ ٹرافی پاکستان کی ہو گی اور ایک ہفتے بعد یونس خان ٹرافی اٹھائے پاکستان کے پہلے عالمی ٹی 20 ٹائٹل کا جشن منا رہے تھے۔

کسی ایونٹ کے شروع میں اگر کوئی اچھی ٹیم نہایت برا وقت دیکھ لیتی ہے اور اس کے باوجود اگلے مرحلے تک رسائی حاصل کر جاتی ہے تو پھر اسے روکنا یوں نا ممکن ہوتا ہے کہ وہ ٹورنامنٹ میں اپنا بدترین وقت نہایت شروع میں ہی دیکھ چکی ہوتی ہے۔ سو جوں جوں ٹائٹل قریب آتا جاتا ہے ان کے لیے دوڑ آسان ہوتی جاتی ہے۔

ثقلین مشتاق کہتے ہیں کہ جب کوئی ٹیم ٹورنامنٹ کا آغاز ہی تابڑ توڑ پرفارمنس سے کرے اور پے در پے جیتتی چلی جائے تو وہ بڑے میچ تک پہنچتے پہنچتے تھک جاتی ہے۔ ورلڈ کپ سنہ 2015 میں نیوزی لینڈ کے سفر کو دیکھیے تو کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔

جو ٹیمیں ٹورنامنٹ کے دوران اپنی شکل نکال لیتی ہیں، ان کے بارے اکثر کہا جاتا ہے کہ صحیح وقت پہ سبھی ستارے عین اس ترتیب میں آ گئے جس نے تمام منطق کی حدوں کو توڑ کے فتح اس ٹیم کا مقدر کر دی۔ سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی فتح کی بھی کم و بیش یہی تشریح پیش کی جاتی ہے۔

کیا واقعی کوئی ستارے اس طرح سے آسمان پہ ملتے ہیں کہ گراونڈ میں یکسر کایا کلپ ہو جاتی ہے؟

پی ایس ایل کا جب آغاز ہوا تھا تو ملتان سلطانز سب سے تگڑی ٹیم بن کر سامنے آئی۔ کراچی کنگز نے پے درپے فتوحات سمیٹیں۔ پشاور زلمی کے ستارے بھی روشن تھے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں اعتماد کی کمی تھی۔ اسلام آباد یونائیٹڈ بجھی بجھی سی تھی اور لاہور قلندرز پچھلے دو سیزنز کی کہانی دہرا رہی تھی۔

اس وقت سب سے تگڑی ٹیم ملتان اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے دوسری ٹیموں کے اگر مگر پہ غور کر رہی ہے۔ کراچی مستحکم ہے۔ کوئٹہ اپنا مشکل وقت گزار کر ٹیبل کی چوٹی پر بیٹھی ہے۔ زلمی قسمت کی ہیرا پھیری کی منتظر ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ پہلے دو میچ ہارنے کے بعد پھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ لاہور قلندرز البتہ وہیں ہیں جہاں وہ دو سیزنز پہلے تھی۔

ستاروں نے کس کا ساتھ دیا اور کس کا نہیں، یہ تو ہم نہیں جانتے مگر یہ واضح ہے کہ جن دو ٹیموں نے ٹورنامنٹ کے دوران شکل نکالی، وہ کوئٹہ اور اسلام آباد ہیں۔ جن دو ٹیموں نے ٹورنامنٹ کا آغاز اچھا کیا لیکن بیچ میں رستہ بھول گئیں، وہ ملتان سلطانز اور زلمی ہیں۔

فرینچائز کرکٹ میں مینیجمنٹ کے تقاضے انٹرنیشنل کرکٹ سے کہیں مختلف ہیں۔ برینڈن میکلم بھلے نیوزی لینڈ کے کامیاب ترین کپتان رہے ہوں مگر فرینچائز کرکٹ کی کپتانی میں اپنی شہرت سے انصاف نہیں کر پائے۔ اسی طرح کمار سنگاکارا پچھلے سال کراچی کی کپتانی میں ویسا جادو نہیں جگا سکے جو سری لنکن ٹیم کی قیادت میں دکھاتے تھے۔

انٹرنیشنل کرکٹ مینیجمنٹ میں کوچ اور کپتان کے پاس ہفتوں نہیں، مہینوں کا وقت ہوتا ہے کہ وہ باہم ایک کیمسٹری تشکیل دے سکیں۔ علاوہ ازیں کپتان کو صرف اپنے ہی کلچر کے لوگوں سے نمٹنا ہوتا ہے۔ فرنچائزکرکٹ میں وقت ہفتوں کا نہیں، صرف دنوں کا ہوتا ہے اور منیجمنٹ کو متنوع کلچرز کے کھلاڑیوں کو ساتھ لے کے چلنا ہوتا ہے۔

فرینچائز کرکٹ میں جو مینیجمنٹ جلد ازجلد ٹورنامنٹ کی رفتار اور سکواڈ کی طاقت میں توازن پیدا کر لیتی ہے، وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے۔ جس وقت پی ایس ایل ڈرافٹ ہوا تھا، اسلام آباد یونائیٹڈ سب سے کمزور ٹیم نظر آ رہی تھی۔ کوئٹہ بھی خاصی بے کیف سی لگتی تھی لیکن ایونٹ کے دوران ان ٹیموں نے توازن سیکھ لیا ہے۔ اس کے برعکس جو ٹیمیں ڈرافٹ میں چمکتی دمکتی نظر آ رہی تھیں، وہ کسی حد تک توازن کھو بیٹھی ہیں۔

ٹورنامنٹ ابھی بھی کافی حد تک اوپن ہے۔ اندازے اور تخمینے اپنی جگہ، مگر تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ کون سی چار ٹیمیں اگلے مرحلے تک پہنچیں گی، لیکن یہ طے ہے کہ باہر ہونے والے لاہور کے ساتھ دوسری ٹیم وہی ہو گی جو میدان میں ستارے ملانے کی بجائے آسمان پہ ستارے ملنے کی منتظر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp