سیاسی جلسے شعر سے جوتے تک


بزرگوں کا کہنا ہے جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے۔ ہم نے تشدد کی فصل بوئی ہے تو امن کے پھول کیسے کھلیں گے۔ معاشرے میں عدم تشدد کی فضا جو پچھلی کئی دہائیوں سے طاری ہے اسی کے ثمرات ہیں جو ہم آج ان ذلت آمیز واقعات سے دوچار ہیں۔

کہتے ہیں سیاست ایک گندہ کھیل ہے لیکن جمہوریت ایک بہترین طرز حکومت، عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاست دان اسمبلیوں میں پہنچ کر بھول ہی جاتے ہیں کہ عوام کے لیے کام کرنا ہے۔ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرتے ہیں اپنا مفاد مقدم رکھتے ہیں کسی کے ذاتی خزانے میں اضافہ ہوتا ہے کسی کی آف شور کمپنیاں جنم لیتی ہیں، کوئی اپنے اثاثے بیرون ملک پہنچا دیتا ہے اور ان سب کاموں کے ہوتے عوام کی خدمت کا غلغلہ مچانا ایسا ہی ہے جیسے عوام کو جوتا مارنا۔

ہمارے ملک میں ایک وزیر اعظم ایسا نہیں گزرا جس نے مدت پوری کی ہو، آپس میں ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا، سیاسی جلسوں میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، الفاظ کا غلط استعمال، الزام تراشیاں ، ایک دوسرے کو سرے عام نیچا دکھانے کے لیے نیچ زبان کا استعمال، یہی تربیت تو کی ہے ہم نے عوام کی، پچھلے دنوں ایک دھرنے کے توسط سے ایک گالی زبان زد خاص و عام ہو کر عام گفتگو میں شامل ہو گئی، کسی کو الٹا لٹکانے کی باتیں کسی کو مونچھوں سے سے کھنچوانے کا اعلان، کسی کے گھر میں گھس کر انصاف لینے کے نظریے۔ ان سب کے ساتھ عوام کے بنیادی مسئلوں کو حل کرنا تو دور کی بات ان پر توجہ ہی نہیں دی گئی، پینے کا صاف پانی، علاج معالجے کی دہولت، تعلیم عام کرنا، غربت دور کرنا ان مسائل کو حل کرنا تو دور کی بات ان پر توجہ ہی نہیں دی جاتی، یہی نہیں امیر امیر تر غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ جو کام پارلیمنٹ کو کرنا تھے وہ عدلیہ کروارہی ہے، عوام کو امن وامان فراہم کرنا فوج کا کام بن گیا ہے۔

سیاست دانوں نے اسمبلی کو مچھلی بازار اور جلسوں کو جوتم پیزار، گالی گلوچ، کا ذریعہ بنالیا ہے اپنے اجداد کا انداز سیاست بھول ہی گئے ہیں، کتنی شائستہ اور مہزب زبان استعمال ہوتی تھی، محاورں اور ضرب المثال کی مار ماری جاتی تھی کسی پہ طنز کرنا ہوتا تو شعر کی زبان میں حال دل کہتے مثلا سردار عبدالرب نشتر اپنے دور میں ہونے والی نا انصافی پر جلسوں میں اکثر یہ شعر پڑھتے
نیرنگئی سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

ایسے ایسے شعلہ بیان سیاست دان گزرے ہیں کہ لوگ ان کے جلسو ں میں خاموشی سے ان کی تقریر سنتے تھے اور زبان وبیان کے انداز سیکھتے تھے۔
پچھلے دنوں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو ایک بات مشترک ہے جیسے ناروال کے ورکرز کنونشن میں دوران ِ خطاب ایک نوجوان نے وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال پر جوتا اچھال دیا، سیالکوٹ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران ایک شخص نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے منہ پر سیاہی انڈیل دی اب ایک حالیہ افسوسناک واقعہ جس پر تبصرے اور مذمت ہورہی ہے، گڑہی شاہو میں سابق وزیر اعظم نواز شریف پر جامعہ نعیمیہ کے زیر اہتمام تقریب میں جوتا مارا گیا جو انھیں سینے پر لگا اس شخص کو تو پکڑ لیا گیا، کتنے افسوس کی بات ہے علم وعمل کے مرکز، علم ودانائی، حکمت وتہزیب کے گہوارے میں ایسی قبحیح حرکت ہوئی۔ قابل مذمت اور قابل تعزیر حرکت ہے کیونکہ مدارس کا مثبت کردار ویسے ہی مشکوک ہے اس حرکت سے ایک مہر لگ گئی ، غیر مہزب اور عدم برداشت کی چھاپ مزید گہری ہو گئی۔

اس رویے کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ اس طرح سزا دینے کا اختیار ہر خاص وعام کو نہیں دیا جاسکتا اس سے معاشرے میں انارکی پھیلے گی۔ ہر شخص جوتے مارنے یا گولی چلانے کی منطقی دلیل دے رہا ہو گا، عدم برداشت کا رویہ اس قدر پھیل گیا ہے لوگوں میں برداشت رہی ہی نہیں ہے، مشال قتل بھی اس کی مثال ہے، مشہور زمانہ شاہ زیب قتل کیس بھی عدم برداشت کا کیس ہے، ایک زمانے میں چور اچکوں، گن پوائنٹ پرس موبائل پر س چھیننے والوں کو عوام نے انصاف نہ ملنے پہر زندہ جلانا شروع کر دیا تھا جب اس پر بہت لے دے ہوئی تب جاکر یہ بند ہوا۔ یہی رویے ہمیں لے ڈوبیں گے۔ ہم فلاحی معاشرے کی بنیاد ہی نہیں رکھ پائے، جہاں شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے، کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا، امیر شہر عوام کی خبر گیری کرتے تھے۔ آج ہمارے چاروں طرف ایک تکلیف دہ صورتحال ہے، سفید پوشی کا بھرم رکھنا محال ہوگیا ہے۔ لوگ پولیس کے رویے سے تنگ، ایف آئی آر کٹوانا مشکل ترین کام، کہیں آگ لگ جائے تو آگ بجھانے والی گاڑیوں میں آگ بجھانے والے آلات پورے نہیں، ایکسیڈنٹ یا ہنگاموں کی صورت میں ہسپتالوں میں انتظام نہیں، قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری نہیں، محکمہ موسمیات موسم کی تبدیلی بتانے کا اہل نہیں۔

اس سب کی ذمہ دار بلدیاتی، صوبائی اور قومی انتظامیہ اور یہی منتخب نمائندے ہیں جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے وقت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور طاقت ملتے ہی اپنے قول سے پھر جاتے ہیں۔ الیکشن میں زیادہ عرصہ نہیں خدارا اپنا طرز عمل درست کیجئے کیونکہ عوام بے لگام ہو کر کچھ بھی کر سکتے ہیں عو ام کے ووٹ کا تقدس بحال کیجئے اور تعمیر وطن کا سوچیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور آپ کو عزت، ورنہ یہ جوتا پھر اچھالا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).