مائی لارڈ اور مائی گارڈ بلوچوں کی ٹویٹس دیکھیں


تکنیکی طور پر کچھ غلط نہیں ہوا، کچھ اچھا ہی ہوا ہے۔ صادق سنجرانی بلوچستان سے پہلے چئرمین سینیٹ بن گئے ہیں۔ بلوچ ہیں آزاد سینیٹر منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ نون اور پی پی دونوں کے ساتھ اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ ماڑا بندہ سیاسی لوگ کب نزدیک آنے دیتے وہ بھی اپنی حکومت کے دوران۔

بلوچستان سے چھ دانے آزاد سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ اس سے بلوچستان کی حکومت دھڑام سے گر گئی تھی۔ بلوچ پشتون قوم پرست پارٹیوں کی حمایت رکھنے والے نواب زہری اک دن سو کر اٹھے تو تختہ الٹ چکا تھا۔

اس کا کریڈٹ زرداری صاحب کو جاتا ہے۔ وہ بڑے فخر سے یہ کریڈٹ لیتے بھی ہیں۔ انہوں نے محنت بھی کی پورا سال بلوچستان میں رابطے کرتے رہے۔ عبدالقدوس بزنجو وزیراعلی ایسے ہی منتخب نہیں ہوئے۔ زرداری صاحب نے اک اک دانا اکٹھا کیا، گیم لگائی۔ ایسے ہی تو قیوم سومرو نئے وزیراعلی بلوچستان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر جھوٹے لے رہے تھے۔

زرداری صاحب نے یہ تبدیلی لانے کے لیے اک اک اہم گھر سے رابطہ کیا۔ اہم گھر سے یاد آیا مائی گارڈ نے ابھی جو آف دی ریکارڈ خطاب فرمایا۔ وہی مشہور خطاب جو میڈیا سے چھپایا گیا لیکن لوگوں نے اپنے کانوں سنا اور آنکھوں سے پڑھا۔ تو اس خطاب میں مائی گارڈ نے فرمایا کہ بلوچستان کی سابق حکومت سست اور نکمی تھی۔ ممبران تنگ تھے کوئی کام نہیں ہو رہا تھا تو ہم نے تبدیلی کے لیے سہولت فراہم کی۔

اب کوئی ہمیں بس اتنا بتا دے کہ ہم مٹھائی کا ڈبہ لے کر کدھر جائیں مبارک باد دینے۔ چیف ہاؤس پنڈی یا بلاول ہاؤس اسلام آباد۔ بلاول ہاؤس سے یاد آیا خبریں آ رہی ہیں کہ قیوم سومرو کو ان کی شاندار کارکردگی کے اعتراف میں زرداری صاحب نے فارغ کر دیا ہے۔ سومرو صاحب فارغ ہو کر بھی اک دن پہلے جتنے ووٹ بتائے تھے سنجرانی صاحب کو گن کر اتنے ہی ووٹ پڑے۔

سیاست پاور گیم کا نام ہے۔ زرداری صاحب نے کو اپنی گیم لگانی تھی انہوں نے لگائی۔ اس میں خفا ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے سارے گھروں سے رابطہ کیا۔ انہونی کر دکھائی اپنے لیے گنجائش بنا لی۔

کپتان نے بھی پہلی بار سیاسی کارڈ درست انداز میں کھیلے۔ بلوچستان سے چئرمین سینیٹ لانے کی حمایت کی۔ وہاں سے آزاد امیدوار جنہوں نے پی پی میں شامل ہونا تھا۔ ان کو آزاد ہی رہ کر کامیابی مل گئی۔ پی پی یہاں ذرا ناکام ہو گئی۔

پی پی واقعی ناکام ہوئی یا نہیں۔ یہ جاننے کے لیے کوئٹہ اک دوست کو فون کیا۔ انہیں مبارک باد دی کہ آپ کو کل بلوچستان کے حقوق ملنے کی شروعات ہو گئی۔ کچھ نہ پوچھیں انہوں نے کیا کہا بس ٹوں ٹوں۔ بڑی مشکل سے ٹھنڈا کیا۔ دوسرے دوست سے پوچھا کہ پی پی میں شامل ہونا تھا آزاد سینیٹروں نے۔ اسی کی محنت سے کامیاب ہوئے تھے۔ اس نے آگے سے کہا یارا کیوں شامل ہوتے جب پی پی خود ہی سیاست کے بازار میں بکنے کو تیار ہو گئی تھی۔

جیالوں کی پارٹی بارے یہ تبصرے دل شکن ہیں۔ ویسے ہی سب کی اطلاع واسطے عرض ہے اور کہنے والے بتاتے ہیں کہ آصف زرداری نے بھی فرحت اللہ بابر سے کچھ کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا یہ سب تو میں بھی سوچتا ہوں۔ سیاست کی حقیقت مختلف ہے۔ یہ سب کہنے کا وقت نہیں تھا۔ تنکا تنکا جوڑ کر اپنی گیم بنانے بچانے کا وقت تھا اور ہے۔

یہ سیاست کا کھیل ہے۔ اس میں ایسے ہی اپنے حساب برابر کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی فائدے لیے جاتے ہیں۔ سنجرانی صاحب اور ان کے ساتھی جب آزاد رہ کر چیئرمین بن رہے تھے۔ تو وہ لوگ کیوں پی پی میں شامل ہوتے۔ خرچہ جن کا ہونا تھا ہو گیا تھا۔ کپتان کو بلوچستان کتنے وقت پر یاد آیا ان سب کی موج ہو گئی۔

کپتان نے زرداری صاحب نے سنجرانی صاحب نے جو کیا ٹھیک کیا۔ سیاست میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ انہوں نے اگر طاقت کے بڑے کھلاڑیوں سے رابطے کیے تو ہمارے ماحول مطابق کچھ ایسا غلط نہیں تھا۔ یہاں یہ ہوتا آیا ہے ابھی آگے بھی ہو گا۔

مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں نے بلوچستان حکومت گنوائی ہے۔ ان کے مخالفین نے تو ان کے ساتھ جو کیا ٹھیک کیا۔ یہ تو تھے ہی مخالف، انہیں اپنی غلطیاں اپنا قصور بھی تلاش کرنا چاہیے۔ کس آسانی سے ان کی حکومت گرا دی گئی۔

اب کچھ باتیں مائی لارڈ و مائی گارڈ کے بارے میں۔ اس سے پہلے جل تو جلال تو اللہ میاں میں اکیلا ہی ہوں ذرا ہونا میرے نال تو۔

دعا منگ کے بھی مطلوبہ بہادری ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں۔ اس لیے مائی لارڈ اور مائی گارڈ معافی پھر کبھی سہی۔

کل وزیرستان میں سکول کے بچوں نے روڈ بلاک کر دی تھی کہ وہ چیک پوسٹوں پر مزید تلاشی نہیں دیں گے۔ ان بچوں کو تو شاید یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ بچے جب اپنی فوج کے کسی جوان کو سلام کرتے ہیں تو وہ آگے احکامات کے مطابق بچوں کو سلیوٹ کرتا ہے۔

چلتے چلتے یہ پوچھ لیتے ہیں کہ سرکار آپ دونوں نے ٹویٹر پر بلوچ قوم پرستوں کی ٹویٹ دیکھتے ہیں؟ آپ نے حاصل بزنجو کی تقریر سنی ہے؟ سینیٹ الیکشن ہارنے کے بعد۔ آپ نے عثمان کاکڑ کی تقریر سنی؟ نوازشریف کا علاج تو بہترین ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ اڑتی جوتیوں میں الیکشن مہم گھٹا مٹی ہی ہونی ان کی۔ اس طرف سے تو اب بے غم ہو جائیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi