بیوی خور نامرد


ایک بیان سوشل میڈیا پر بونی کپور اور سری دیوی کی تصویر کے ساتھ ادھر اُدھر پھر رہا تھا، کہ وہ صرف 54سال کی، مکمل فٹ، اور ہارٹ اٹیک سے مر گئی، دوسری طرف، بونی کپور موٹا، عمر میں اس سے بڑا، ابھی تک ہٹا کٹا پھر رہا ہے۔
یہ پڑھ کر میری دوست گ بولی:موٹا سانڈ، دو بیویاں ڈکار گیا ہے۔ 500 بیماریاں بھی ہوں گی، پر مرے گا نہیں کم بخت، اور تنہائی دور کر نے لئے دیکھنا جلد ہی تیسری شادی بھی کر لے گا، اور، زندہ تابندہ رہے گا۔ بولی یہ سارے نامرد بیوی خور ہوتے ہیں۔
بیوی خور؟ نامرد؟ میں چونکی

بولی: چلو یہ تو سری دیوی کو باتھ ٹب میں ڈبو کر، بچ گیا۔ یہ تو صرف بچ گیا، وہ کم بخت زرداری۔ وہ تو صدر ہی بن گیا تھا۔
اور وہ وہ شہزادہ، جو شکل سے میراثی لگتا ہے، چارلس، ایک چڑیل جیسی شکل کی عورت کے پیچھے ک سے کمیلا۔ ک سے۔ میں نے کہا بس کافی ہے، میں سمجھ گئی، آجکل اسی نام کی ایک مسلم لیگ کی فرنچائز بھی کھلنے والی ہے۔

ہائے ہماری سری دیوی، ہماری بے نظیر اور ہماری لیڈی ڈیانا۔ اس نے ساری عورتوں کو ایک قبیلہ میں اپنائیت کے دھاگے سے باندھ دیا۔
چلو یہ تینوں بیوی خور تو ہوئے، مگر نامرد؟ یہ کیا منطق ہے؟
بولی: وفا 100%ایک مردانہ صفت ہے۔ عورتوں کے ساتھ وفا منسوب کر نا مناسب نہیں۔ کیونکہ ہر حال میں ساتھ نبھانا، یہ بڑے مضبوط اعصاب کا کام ہے تو بولو مضبوط کو ن ہوتا ہے مرد یا عورت؟
میں نے کہا عورت زیادہ وفادار ہو تی ہے۔ وہ اپنی لاش کے اوپر اپنے گھر کی بنیادیں تھامے رکھتی ہے۔

بولی : وہ عورتیں زیادہ وفادار ہو تی ہیں، جو اندر سے مردوں کی طرح مضبوط ہو تی ہیں۔ ورنہ سوچو، ذرا دکھ ملتا ہے، عورتیں رونے کو ایک کندھا ڈھونڈتی ہیں، چاہے وہ ماں کا ہو، دوست کا، بہن کا یا کسی اور کا۔ پھر یہ منحصر ہو تا ہے کس کی تربیت کیا ہے، یا کس کا معیار کیا ہے۔ اور بے وفائی صرف یہ تو نہیں کہ کے ساتھ افئیر ہی چلا لو، یہ بھی بے وفائی ہی ہے کہ جو مان سمان، جو رشتہ گھر سے، شوہر سے ہے، اس میں عورت کسی اور کو بھی شریک کر لے، چاہے اس کا میکہ ہی کیوں نہ ہو۔ عورت جسمانی طور پر نہیں تھکتی لیکن جذباتی طور پر بکھر جاتی ہے۔ کسی بھی ہارمونل بہاؤ میں بہہ سکتی ہے۔ اسی لئے اسلام میں عورت کی ایک نہیں دو گواہیاں مانی جاتی ہیں۔

ہمممم۔ میں، جس نے ہمیشہ مردوں کے ساتھ مقابلے لگائے مگر اس کی باتیں سن کر سوچنے لگی اورمیرے ذہن میں اپنے بچپن، لڑکپن میں دیکھے رشتے داروں، دوستوں کے گھروں کے منظر نامے چلنے لگے۔

ہاں۔ ایسا ہی تھا۔ جن گھروں میں مرد مضبوط دماغ کے، فیصلے کر نے والے، مگر بیویوں کو ساتھ شامل رکھنے والے، انہیں اعتماد بخشتے، ان کے ساتھ وفا نبھاتے، نظر آئے، مجھے وہاں، اپنی یاداشت میں ایک امن و امان کی حسین لہر نظر آئی، وہاں گھر میں بیٹھی، عورت چاہے پڑھی لکھی تھی، یا ان پڑھ، مجھے، سب کے چہروں پر پھیلا وہ اطمینان یاد آیا، جو نہ ان کے ماں باپ نے انہیں جہیز میں دیا ہو گا، نہ ان کی تعلیم نے، اور نہ ان کے ماحول نے۔ یہ اطمینان مجھے اس رشتے کی وجہ سے نظر آیا جو اپنے شوہروں کی وجہ سے ان کے چہروں پر تھا۔

ن پڑھ عورتیں، شوہروں کے دیے اعتماد، وفا اور حوصلہ مندی کی وجہ سے مضبوط، متوازن اور مطمئن مائیں نظر آتی تھیں۔ ان گھروں کی فضا، گرمیوں کے موسم میں بھی ٹھنڈک دیتی یا د آئی۔ اور ایسی ماؤں کی بیٹیاں بھی بہت کمپوزڈ ہوتی تھیں۔ یعنی کہ ایک باپ کی مضبوطی نسلوں تک منتقل ہو جاتی ہے۔

دوسری طرف، وہ عورتیں ذہن میں آئیں، جو بچپن کے تو کسی گھر میں نہیں ہو تی تھیں، مگر آج کل جا بجا نظر آتی ہیں، تعلیم یافتہ، اتنی کہ مردوں کو بھی کاٹ جائیں مگر غیر مطمئن، غیر متوازن، حقوق کی خاطر چیختی چلاتیں، اپنی شناخت پر کنفیوز، پریشانی کا شکار۔ اور یہ سب ان کے مردوں کا ہی تحفہ نظر آیا، وہ کمزور، احساس ِ کمتری کے مارے، جذباتی ( ہر وقت سہاروں کی، یا سچی محبت کی تلاش میں گامزن )، جو مل جائے اس کے آگے رونے والے، بے وفا قسم کے۔ اور ایسے مرد، وہ سری دیوی ہو، یا لیڈی ڈیانا، یا بے نظیر۔ کسی کو بھی ڈپریشن اور موت کے منہ میں آسانی سے دھکیل سکتے ہیں۔

“نامردانگی“ سے ایک دو چہرے بڑے واضح ہو کے آنکھوں کے آگے گھومے۔
ایک کی تو بیوی، جس کے ساتھ بیٹھتی تھیں، یہ راز افشا کر کے اٹھتی تھیں کہ ان کے شوہر کسی کام کے نہیں رہ گئے۔ شاعری اورشراب نے تباہ کر دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہماری پہلی ہی ملاقات میں میرے کان میں جب وہ خاتون یہ کھسر پھسر کر رہی تھیں تو میں نے حیرانگی سے انہیں دیکھا، کیونکہ ان“ بی بی“ کی فنکشنز میں آمد سے پہلے، ان صاحب کی شہرت womanizer کی تھی، مگر شاید وہ لوگوں کا، خاص کر کے ان عورتوں کا، جن پر ان کے “صاحب” کی نظر پڑ سکتی تھی اور وہ اپنی شاعری کے جال میں پھنسا سکتے تھے، انہیں آگاہی دینے ہی، سب کام کاج چھوڑ کر میدان میں اتری تھیں۔ اس وقت بھی شوہرکسی خوبصورت سی انڈین سنگر کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہو ئے تھے۔

اور مجھے یہ بتاتے ہوئے وہ خون خوار آنکھوں سے شوہر کو دیکھتے ہو ئے دیوانہ وار ہنستی جا رہی تھی۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں اسے کوئی دورہ تو نہیں پڑ گیا ہے۔ میں نے کندھے دبا کر اسے تسلی دی۔ کسی ہنستے ہو ئے کو تسلی دینے کا یہ میرا پہلا موقعہ تھا۔ مگر آج اپنی دوست گ کی تھیوری کی روشنی میں دیکھوں تو جتنی بے اطمینانی، ذہنی اذیت، بے سکونی اور بے اعتمادی میں نے اس نامرد شوہر والی عورت کے چہرے پر دیکھی، اتنی شاید ہی میں نے کھبی کسی عورت کے چہرے پر دیکھی ہو۔ اور مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کون ذیادہ قابل ِ رحم ہے؟ وہ جو اپنی نامردانگی کی تسکین کے لئے مختلف اور بہت سی عورتوں کے ساتھ اوپر اوپر سے ہی دل بہلاکر خود کو طاقتور محسوس کر تا ہے یا یہ عورت جو، ایسی حالت کے مرد کے ساتھ رہ کر وفاداری کا طوق بھی گلے میں پہنے ہو ئے ہے اور اس نامرد کی بے وفائی کو بھی، روز جھیلتی ہے۔ دونوں کی مظلومیت کا تو میں فیصلہ نہ کر سکی مگر اپنی دعاؤں میں دونوں کے لئے سکون مانگ لیتی ہوں۔

دوسرا چہرہ بھی ہمیں اپنے آس پاس نظر آتا ہے، معروف شخصیت ہیں، بہت سی طلاقوں کے بعد wifeless ہیں اور ہر وہ عورت جن کے ساتھ یہ صاحب تعلق قائم کر تے ہیں، اس کے ختم ہو تے ہی ( ختم کر نے کی پہل کون کرتا ہے یہ بات ابھی تک ٹورنٹو شہر کی خبروں میں آئی نہیں )، یا کئی دفعہ تعلق کے اندر رہتے ہو ئے بھی عورتیں، ان صاحب کی نا اہلیت کا فیصلہ محفوظ نہیں رکھتیں اور جا بجا تھوکتی پھرتی ہیں۔ یہاں بھی معاملہ سمجھ سے باہر ہے کہ اگر ایسی ہی نا اہلی ہے تو، عورتوں کا یہ مجمع اکھٹا کرنے کا کیا شوق ہے، کون سا جذبہ جنون ہے جس کی تسکین یوں بھی ہو گی اور آپ خود کو مردوں میں شمار کر یں گے۔ دونوں کیسز میں نامردانگی کا سرٹییفکیٹ پانے والے حضرات، زیادہ بے وفائی کی طرف مائل نکلے۔

لہذا، گ، ٹھیک کہتی ہے۔ وفا خالص مردانہ صفت ہے۔ نامردوں کا اس سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
کہا بھی تو یہی جاتا ہے، کہ مرد کی ایک زبان ہو تی ہے۔ یعنی جو مرد ہو گا، وہی وعدہ وفا کر ے گا۔ نامرد، وعدہ شکنی کو اپنی مجبوری بتا کر، کہیں بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جان تک لے سکتا ہے۔
یہ نہ سمجھیں کہ میں بونی کپور، زداری اور چارلس کو زندہ دیکھ کر کڑھ رہی ہوں۔ میں تو اردگرد پھیلے ہوئے بیوی خورنامردوں سے پریشان ہوں۔ ابھی کتنی موتیں باقی ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).