احساس کی چڑیا


احساس نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، جی ہاں! یا یوں کہیں احساس نام کی بھی ایک چیز ہوتی تھی۔ جس نے وٖفا سے نکل کر اسے بے وفائی بنا دیا اور دوستی سے نکل کر اسے دھوکہ بنا دیا۔ ایک دور ہوتا تھا اسی نام کی ایک چیز رشتوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ جب آپسی رشتوں میں ناراضگیوں اور رنجشوں کے باوجود قربت اور خلوص موجود ہوتا تھا۔ نوجوانوں کو دیکھیں عشق کے دعوے تو ایسے کرتے ہیں جیسے عشق میں میں پی ایچ ڈی کرچکے ہوں مگر جب وقت بٹ جانے کا آئے یا سامنا کرنے کا آئے تو دبک کر ایسے بیٹھتے ہیں ’جیسے جانتے نہیں‘۔ کسی خاتون کو یہ کہنا بہت آسان ہے ’تم جان ہو میری‘ اور یہ کہتے وقت نا یہ سمجھتے ہیں کہ جان کہنے کا مطلب کیا ہے چاہے اگلی اس جملے کے پیچھے جان ہی دے بیٹھے اور خواتین نے بھی تو شانہ بشانہ چلنے کی قسم کھائی ہوئی ہے تو پیچھے کیوں رہیں۔ وہ بھی سہولت سے کہہ دیتی ہیں ’اب سے آپ ہی میرے سب کچھ ہو‘۔ اور جب وہ بے چارہ اس ’سب کچھ‘ کے چکر میں اپنا سب کچھ تیاگ کر آتا ہے تو وہ کہتی ہیں مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ زندگی آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔

اصل بات ہے جذبات کی اور احساس کی۔ ہمیں جذبے، احساس اور لہر میں فرق ہی نہیں پتا۔ بعض اوقات ہم خوبصورتی یا دل لگی کی لہر کے ساتھ بہتے ہوئے خود کو عاشق سے معشوق سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ہم کسی کے کردار پر بات کرتے ہوئے یہ بھی نظر انداز کردیتے ہیں کہ ہمارا طعنہ کسی کے دل پر کتنا بڑا اثر کرتا ہے۔ ہم کہہ تو دیتے ہیں کہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا ملی ہے۔ اس لئے تمہارے ساتھ برا ہورہا ہے۔ ہمارا یہ جملہ ہوتا ہے اور اگلے کو زندگی کے سارے کردہ ناکردہ گناہ یاد آجاتے ہیں۔ ہمارا صرف ایک جملہ ہوتا ہے کہ کہ اگر تم اس کے ساتھ بیٹھی تھی یا بات کررہے تھے تو جاؤ اسی کی ساتھ رہو۔ ہمارا یہ جملہ نا صرف لاتعلقی کا اظہار ہے بلکہ اگلے کے کردار پر بہت بڑا حملہ ہونے کے ساتھ ساتھ وفا پر شک بھی ہے مگر ہمیں کیا! ہم تو احساس اور محبت کو نکال کر زندگیوں میں غصہ اور عداوت لے آئے۔

احساس کی یہ ناپیدگی اور صرف انجان لوگوں کے ساتھ نہیں ہم اپنے بہت قریبی دوستوں رشتوں سے صرف اس لئے لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں کہ ان کے رویے ہمارے مزاض سے مختلف ہیں۔ تو بھئی فرق کیا پڑتا ہے۔ یہ عادات و خیالات مختلف ہونے سے۔ اگر ایک جیسا ہی پیدا کرنا ہوتا تو وہی پیدا کرلیتا جسے ہر شے پر اختیار ہے۔ رشتے اور تعلق اس لئے بھی ترک کردیے جاتے ہیں کہ اب ان کی ضرورت نہیں۔ ہم نے ضرورتوں کو رشتوں کا نعم البدل سمجھ لیا۔ تو یہاں نہات افسوس کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ دنیا میں نعم البدل نام کی چیز صرف ایک دھوکہ ہے۔ احساس کا کوئی نعم البدل نہیں اور دکھاوا تو احساس کا آخری نعم البدل بننے کے قابل بھی نہیں۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا رویوں کے بدلنے سے تو اصل میں ہم چیخ چیخ کر اعلان کررہے ہوتے ہیں کہ رویوں کے زخموں نے مجھے اس قدر نڈھال کردیا ہے کہ مجھے اب مزید زخم بڑھانے بھی نہیں اور دکھانے بھی نہیں۔ اسی احساس کی عدم موجودگی اور جیت کے نشے میں ہم رشتوں کو آمنے سامنے لا کر کھڑا کردیتے ہیں۔ احساس کی عدم موجودگی کی ایک بہت بڑی وجہ انا ہے۔ ہمیں جیتنا ہے رشتوں سے اور رواجوں سے۔ مگر افسوس ان دونوں سے جیت ممکن نہیں۔ آپ کو انہیں ساتھ لے کر چلنا ہے بلکہ بنا کر رکھنی ہے۔ کیوں کہ ان سے فرار آپ کو دوہری اذیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ ایسی کوئی بھی جیت آپ کے اندر ایک مستقل بے حسی پیدا کردیتی ہے۔ فرار کی واحد وجہ ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرنا ہے۔ کسی بھی تعلق سے اگر احساس نکال دیا جائے تو اس سے منسلک ذمہ داریوں سے فرار مل جاتا ہے۔ اپنی بزدلی اور غیر ذمہ داری پر پردے ڈالنے کے لئے ہم روپ اور بھیس بدل لیتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے 2008 میں جب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو انسانی حقوق کے ماہرین کو یہ کہتے سنا کہ جرائم، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ہم بے حس ہوجائیں گے اور ان سب چیزوں کے عادی ہوجائیں گے۔ تو جناب! اذیتوں کا عادی تو کوئی نہیں ہوتا مگر بے حسی والی بات کافی حد تک درست ثابت ہوئی۔ کوئی نوجوان پولیس مقابلے میں مارا جائے یا کسی معصوم بچی کو بے دردی سے قتل کردیا جائے ہمیں بس کہانی لگتی ہے۔ دوسرے ہفتے بعد ہم بھول جاتے ہیں۔ دھماکے کی صورت میں پوچھتے ہیں سکور کیا ہے؟ یعنی کسی انسان کی موت کہانی یا صبر سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اس کے دنیا سے جانے پر کتنوں کے ارمان رخصت ہوئے کس کو پرواہ۔

ایک حل ہے اس کا کہ ہم کم از کم اپنے بچوں کو احساس کی دنیا میں واپس لے آئیں اور یہ تبھی کیا جاسکتا ہے کہ ہم ان کی دنیا میں احساس کو واپس لے آئیں۔ انہیں رشتوں کی اہمیت عملی طور پر سکھائیں۔ انہیں وہی بتائیں جو کر کے دکھا سکیں۔ وہی کریں جو بتائیں اور ان کے سامنے دیگر رشتوں، طبقات اور مسائل ذمہ داری سے ڈسکس کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).