عابدہ حسین نے بے نظیر بھٹو سے “دوستی” کیسے نبھائی؟


عابدہ حسین نے نہ جانے محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں اپنی کتاب میں ایسا کیا لکھ دیا ہے کہ بختاور بھٹو نے اس پر ناراض ہوکرمصنفہ اور پبلشر کو قانونی نوٹس بھجوا دیا اور ٹویٹ میں لکھا: ’’ میری ماں کی موت کے دس سال بعد ان سے متعلق بالکل جھوٹ لکھا گیا ہے جب وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتیں، ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔‘‘

نوٹس کے بعد کتاب کی اشاعت روک دی گئی، اس لیے مندرجات تک ہماری رسائی نہیں لیکن اس کے بغیر بھی بینظیر بھٹو اور عابدہ حسین کے تعلقات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ایک بنیادی حوالہ تو عابدہ حسین کی خود نوشت Power Failure. The Political Odyssey of a Pakistani Woman ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محترمہ سے ہونے والے ان کے ابتدائی روابط جب کہ وہ وزیر اعظم کی بیٹی تھیں، کچھ ایسے خوش گوار نہیں تھے۔ بینظیر بھٹو نے ضیا الحق کی موت کے بعد انتخابی سیاست شروع کی تو عابدہ حسین ان کے مخالف کیمپ میں تھیں۔ 1990کے انتخابات میں آئی ایس آئی نے پیپلز پارٹی کے مخالف جن سیاست دانوں میں پیسے بانٹے، ان میں عابدہ حسین بھی شامل تھیں۔ وہ غالباً واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے کھلے بندوں پیسے کھانے کا اقرار اور انھیں واپس کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت ختم کرنے کی سازش میں بھی عابدہ حسین شریک تھیں ۔ نواز شریف اور صدر فاروق احمد خان لغاری کے درمیان دوریوں کو قرب میں ڈھالنے میں عابدہ حسین نے مرکزی کردار ادا کیا جس کے لیے میاں شریف نے ان کو خصوصی طور پر درخواست کی تھی۔ اپنے اس کردار کے بارے میں وہ اپنی کتاب میں بغیر کسی ندامت کے لکھ چکی ہیں ۔ نواز شریف کے پہلے دور میں عابدہ حسین امریکا میں پاکستان کی سفیر رہیں، دوسرے دور میں وفاقی وزیر کا قلمدان ان کے پاس رہا۔ وہ اس روایتی جاگیردار طبقے کی نمائندہ ہیں، اقتدار کے بغیرجس کا دم گھٹتا ہے اس لیے سیاسی وفاداری تبدیل کرنا ان کے لیے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ 2008 کے الیکشن سے قبل انھوں نے ہوا کا رخ پہچانتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

عابدہ حسین کے دل میں بینظیر بھٹو کے بارے میں کس قدر عناد تھا ، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ایک قوی شہادت نامور براڈ کاسٹر برہان الدین حسن کی کتاب ’’ پس پردہ ‘‘ سے ملتی ہے، جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ عابدہ حسین نے وزیر اطلاعات کی حیثیت میں بینظیر بھٹو کی شخصیت کا تاثر مجروح اور ان کا قد گھٹانے کی کس طرح کوشش کی۔ برہان الدین حسن اس زمانے میں سرکاری ٹی وی میں ڈائریکٹر نیوز تھے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ بے نظیر نے وزیراعظم بننے کے بعد آصف علی زرداری کے ساتھ شادی تو کرلی، لیکن مسز زرداری کہلانے کے بجائے بے نظیر کہلانے کو ترجیح دی، کیونکہ زرداری کے ساتھ منسوب ہونے کی صورت میں یہ خدشہ تھا کہ کہیں وہ ’’بھٹو‘‘ کے نام میں پائی جانے والی طلسماتی کشش سے محروم نہ ہو جائیں۔ اس سے میڈیا کے لئے حقیقی معنوں میں ایک سنگین مسئلہ پیدا ہو گیا کہ انہیں کس نام سے مخاطب کیا جائے؟ نہ تو انہیں ’’مس بھٹو‘‘ کہا جا سکتا تھا، نہ ہی مسز بے نظیر بھٹو کہنا درست تھا، جبکہ انہیں مسز زرداری کہلانا خود پسند نہیں تھا۔

انگریزی اخبارات میں تو انہیں مز (MS) بے نظیر بھٹو لکھا جا سکتا تھا، تاہم اُردو پریس اور الیکٹرانک میڈیا پر ایسا ممکن نہیں تھا۔ ناچار درمیانی راہ یہ نکالی گئی کہ انہیں ’’محترمہ بے نظیر بھٹو‘‘ کہہ کر پکارا جائے۔ عزت و احترام کا یہ لقب سب سے پہلے قائداعظم کی ہمشیرہ مس فاطمہ جناح کے نام کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا۔ عابدہ حسین نے بھی سید فخر امام سے شادی کے بعد خود کو مسز امام کہلانے کی بجائے شادی سے پہلے کے نام کو برقرار رکھنا پسند کیا۔ سادات سے تعلق رکھنے کی بنا پر وہ اپنے نام کے شروع میں باآسانی ’’سیدہ‘‘ کا سابقہ استعمال کر سکتی تھی، لیکن بینظیر کو ’’محترمہ‘‘ کے لقب سے پکارے جانے کے بے حد خلاف تھیں، کیونکہ اس طرح انہیں گویا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ہم پلہ قرار دئیے جانے کا امکان تھا۔ اس لئے انہوں نے وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے جو چند احکام جاری کئے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ ریڈیو اور ٹی وی پر بے نظیر بھٹو کو ’’محترمہ‘‘ کے لقب سے نہ پکارا جائے بلکہ محض ’’بینظیر بھٹو صاحبہ‘‘ کہا جائے۔ اگرچہ یہ نام کانوں کو بہت نامانوس اور عجیب لگتا تھا، لیکن ریڈیو اور ٹی وی وزیر کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتے تھے، اس لئے انہوں نے حسبِ ہدایت بے نظیر کو بے نظیر بھٹو صاحبہ کہنا شروع کر دیا۔

سیدہ عابدہ حسین پی ٹی وی کی خبروں کو اپنے ذاتی کنٹرول میں رکھنا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف کردار کشی کی مہم چلانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے زبانی ہدایات جاری کیں کہ سابق وزیراعظم کے پرتعیش طرز زندگی کو اُجاگر کرنے کے لئے خبرنامہ میں ان کی رہائش گاہ بلاول ہاؤس کی تصویر بار بار دکھائی جائے اور اس محل کے پرشکوہ حصوں کو نمایاں کر کے پیش کیا جائے تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ غریبوں کی ہمدرد اور خیر خواہ ہونے کے دعویدار بینظیر بھٹو کیسے ٹھاٹ باٹ سے زندگی گزارتی ہیں۔ اگرچہ یہ بات بڑی مضحکہ خیز لگتی تھی، تاہم وزیر کے بے معنی حکم پر عمل درآمد کی غرض سے ایک دو بار بلاول ہاؤس کی تصویریں دکھانی پڑیں۔

ایک اور موقع پر راولپنڈی میں منعقدہ ایک کارنر میٹنگ کی کوریج، جس سے بے نظیر بھٹو نے خطاب کیا تھا، پی ٹی وی کیلئے درد سر بن گئی۔ اگرچہ یہ صحیح معنوں میں کوئی جلسہ عام نہیں تھا، تاہم اس میں لوگوں کی خاصی تعداد شریک ہوئی، جو صاف نظر آرہی تھی۔ وزیر اطلاعات کی خواہش تھی کہ اس ویڈیو کو اس طرح ایڈٹ کیا جائے کہ لوگوں کی تعداد کم نظر آئے۔ انہوں نے 30 سیکنڈ کی ویڈیو پہلے خود دیکھی اور جب انہیں جلسہ گاہ کا ایک کونا خالی نظر آیا، تو انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ ویڈیو کو اس طرح ایڈٹ کیا جائے کہ خالی جگہ صاف نظر آئے۔ میں نے جواب دیا کہ اوّل تو ٹیکنیکل لحاظ سے ایسا کرنا ممکن نہیں، لیکن اگر ایسا کر بھی دیا جائے تو یہ بددیانتی ہو گی کہ ناظرین کو گمراہ کرنے کے لئے کسی خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے۔ میرا جواب سن کر انہوں نے بہت پیچ و تاب کھایا، لیکن ٹیکنیکل وجوہ کے باعث کچھ نہیں کر سکیں اور خبر اسی طرح ٹیلی کاسٹ ہوئی، جیسے شروع میں ایڈٹ کی گئی تھی۔ سیدہ عابدہ حسین نے بطور وزیر اطلاعات اپنے مختصر دورِ اقتدار میں پیپلز پارٹی اور اس کی قائد کو پی ٹی وی پر بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).