شہباز شریف کو صدر بنانے میں تاخیر سے کتنا نقصان ہوا؟


بالآخر شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر بن گئے۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ انھیں صدر بنانے میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بہت دیر کر دی ، اس دیر کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا بہت نقصان ہو گیا ہے۔ شاید بظاہر منظر نامہ پر یہ نقصان نظر نہیں آرہا لیکن سیاست کی باریکیوں کو جاننے والے جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کافی نقصان ہو چکا ہے۔ یہ فیصلہ غیر ضروری دیر سے کیا گیا ہے۔

کہتے ہیں کہ اگر صحیح کام بھی صحیح وقت پر نہ کیا جائے تو اس کا اثر نہیں ہوتا۔ صحیح کام غلط وقت پر کرنے سے اکثر صحیح کام بھی غلط ہو جاتا ہے۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ رہاکہ یہ صحیح کام غلط وقت پر کیا گیا ہے۔ میرا موقف ہے کہ یہ صحیح کام غیر ضروری تاخیر سے کیا گیا ہے۔ جس سے ایک تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ یہ بادل نخواستہ کیا گیا ہے۔ جب بند گلی میں پھنس گئے  تو کمان شہباز شریف کو پکڑا دی گئی ہے۔ پتہ نہیں کیوں لیکن یہ رائے بن گئی ہے کہ شہباز شریف اس ذمے داری کے لیے پہلی ترجیح نہیں تھے ،وہ آخری ترجیح تھے۔ اور حالات نے مجبور کر دیا کہ آخری ترجیح کو ہی چننا پڑا۔

<!–nextpage–>

شہباز شریف کو صدر بنانے کے فیصلے کی تاخیر نے صرف مسلم لیگ(ن)کانقصان ہی نہیں کیا بلکہ شہباز شریف کا بھی بہت نقصان کر دیا ہے۔ اگر گزشتہ سال اپنی نااہلی کے فوری بعد نواز شریف شہباز شریف کو صدر بنا دیتے تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ اس غیر ضروری تاخیر نے مسلم لیگ (ن) کے مخالفوں کو یہ موقع دے دیا کہ وہ شہباز شریف کے گرد گھیرا تنگ کر لیں۔ شہباز شریف کو متنازعہ بنانے کے اسکرپٹ پر نہ صرف کام شروع ہو گیا بلکہ اسکرپٹ کافی حد تک مکمل ہو گیا۔

گزشتہ سال ایسے کسی اسکرپٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ شاید یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ شہباز شریف کو صدر نہ بنانا پڑے لیکن نواز شریف کے پاس ان مشکل حالات میں ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اس کی کمان شہباز شریف کے حوالہ کر دیں۔ اس لیے سیاسی مخالفین جانتے تھے کہ جب قیادت بند گلی میں پھنس جائے گی تو کمان شہبازشریف کو ہی ملے گی۔ اس طرح جہاں نواز شریف کوبند گلی میں پھنسانے کے اسکرپٹ پر عمل جاری تھا وہاں شہباز شریف کو متنازعہ بنانے کے اسکرپٹ پر بھی کام شروع ہو گیا۔ تاخیر کے ہر دن کی یہی بہت بڑی قیمت تھی کہ مخالفین کو شہباز شریف پر کام کرنے کا موقع مل گیا۔ آج یہ کام اور اس کے ثمرات نظر آرہے ہیں۔

تاخیر کا سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ مسلم لیگ (ن) سینیٹ میں ہار گئی۔ سینیٹ کی نشستوں میں کمی ہو گئی۔ جیتا ہوا چیئرمین کا انتخاب ہار گئے۔ یہ کوئی چھوٹی ہار نہیں ہے، یہ کوئی چھوٹا نقصان نہیں ہے۔ سیاسی طور پر اگلے انتخابات سے قبل یہ ایک بڑا جھٹکا ہے۔ بے شک نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ ہم ہار کر بھی جیت گئے اور وہ جیت کر بھی ہار گئے۔ لیکن یہ میدان سیاست ہے۔ یہ کھیل اقتدار میں آنے کے لیے کھیلا جاتا ہے۔ ایسا کوئی عمل جو آپ کو اقتدار سے دور کر دے جیت تصور نہیں ہو سکتا۔ ایسے تو جو سیاسی جماعتیں الیکشن ہارتی ہیں وہ سب بھی یہی کہیں گے کہ ہم ہار کر بھی جیت گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہار تو ہار ہوتی ہے اور جیت جیت ہوتی ہے۔ باقی سب باتیں ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر شہباز شریف کو بروقت صدر بنا دیا جاتا تو ن لیگ کی بلوچستان کی حکومت بھی قائم رہتی۔ ایسے حالات ہی پیدا نہ ہوتے کہ دوستوں کو یہ حکومت ختم کرنی پڑتی۔ دیکھا جائے تو یہ کم نقصان نہیں ہے کہ اس تاخیر کی وجہ سے ن لیگ اپنی مستحکم حکومت سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان میں سینیٹ کی سیٹوں کا نقصان بھی سامنے آیا۔ اگر سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تویہ چھوٹا نقصان نہیں ہے۔ جس کے منفی اثرات اگلے نتائج میں بھی سامنے آئیں گے۔

سوال تو بھی کیا جا رہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے قبل شہباز شریف ن لیگ کے عبوری صدر بن چکے تھے اور مستقل صدر بننے جا رہے تھے۔ لیکن وہ اس طرح فعال نہیں تھے جیسے انھیں ہونا چاہیے تھے۔ اس غیر فعال ہونے پر بھی بہت سی کہانیاں بنائی جا رہی ہیں۔ لیکن ان تمام کہانیوں سے قطع نظر میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کو حقیقت کا ادراک تھا۔وہ جانتے تھے کہ جو نقصان ہونا ہے وہ ہو چکا ہے۔ اب چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اسی لیے ان کی دلچسپی کم نظر آرہی تھی۔

صدر بننے کے لیے شہباز شریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انھیں اپنے عمل اور ایکشن سے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کوئی ڈمی صدر نہیں ہیں۔ انھیں یہ صدارت کوئی خانہ پری کے لیے نہیں دی گئی ہے۔ وہ صرف جاتی عمرہ کے فیصلوں پر ایک قانونی ضرورت کے تحت مہر لگانے کے لیے صدر نہیں بنے ہیں۔اگر شہباز شریف نے ڈمی صدر بننے پر اکتفا کیا تو وزارت عظمیٰ کی منزل ان سے بہت دور ہو جائے گی۔ جس طرح ووٹ پورے ہونے کے باوجود سینیٹ کی چیئرمینی ہاتھ سے نکل گئی ہے۔

اسی طرح وزارت عظمیٰ بھی ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اگلے سیٹ اپ میں کسی ڈمی وزیر اعظم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے اس کانٹوں کی سیج پر شہباز شریف کو سب سے پہلے تو دوستوں اور میدان سیاست کے کھلاڑیوں کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ کوئی ڈمی صدر نہیں ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ انھیں بغاوت بھی نہیں کرنی لیکن اپنا اختیار بھی منوانا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکیں گے تو اقتدار کی منزل دور ہو جائے گی۔ اور صدارت کا یہ منصب ان کے لیے ایک گناہ بے لذت سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی نقصان ہو گا۔

سوال یہ بھی ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف کا بیانیہ چلے گا کہ نہیں۔ شہباز شریف اداروں سے مفاہمت کی بات کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے بار بار مسلم لیگ (ن) کے اداروں سے ٹکراؤ پر مبنی بیانات دینے پر پابندی کا مطالبہ کیا لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ اس وقت ایک عمومی تاثر یہ بھی ہے کہ ادارے بھی شہباز شریف سے نا امید ہو رہے ہیں۔اس ٹوٹتی امید کو جوڑنے کے لیے شہباز شریف کو اپنے بیانیہ کی رٹ قائم کرنی ہو گی، پارٹی میں ایک ڈسپلن قائم کرنا ہو گا۔ انھیں یہ باور کروانا ہو گا کہ اب یہی بیانیہ ہی پارٹی پالیسی ہے۔ اس ضمن میں بہتر تو یہی ہو گا کہ وہ پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس بلائیں اور پارٹی پالیسی واضح کر دیں تا کہ اس حوالہ سے ابہام ختم ہو سکے۔

خبر تو یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف کی سوچ کی اکثریت ہے لیکن بلی کے گلی میں گھنٹی کون باندھے گا کے مصداق سب خاموش ہیں۔ انھیں آواز دینا ہو گی، انھیں بات کرنے کا حوصلہ دینا ہوگا۔ ان کی خاموشی توڑنا ہو گی۔ شہباز شریف کی سب سے بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ ان کے پاس ٹائم کم ہے۔ ایک طرف نواز شریف کے خلاف ریفرنسوں کے فیصلے آرہے ہیں، دوسری طرف ان کا مفاہمتی بیانیہ ہے۔ لیکن شہباز شریف کو صدر بنانے کے فیصلے میں تاخیر نے شہباز شریف کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر دی ہیں، جن میں سے سب سے بڑی مشکل کم وقت ہے۔ دیکھنے کی بات ہے کہ شہباز شریف ان مشکلات میں کیسے پرفارم کرتے ہیں۔ یہی ایک سیاستدان کی پہچان ہے کہ وہ نامناسب حالات میں سے راستہ بناتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).