بچیوں کا حساب بے باق کرو


ہم چاہے کتنی ہی دل کو تسلی دے لیں، عورتوں کی دلیری کبھی بھی کسی بھی معاشرے میں قبولیت کا درجہ نہیں رکھتی۔ ہمارے معاشرے میں لاشعوری طور پر ہم بچیوں کی اٹھان کیسی رکھی؟ کیا تربیت کی؟ جیسے سوالوں میں الجھے رہتے ہیں۔ یوں سوالوں کی جمع تقسیم ضرب سے لڑکی کے پیدا ہونے سے لے کر شادی تک اور اُس کے بعد کی زندگی پر بچیوں کے ماں باپ اور گھر والے خود کو مطمئن کرتے اور الجھے نظر آتے ہیں۔ ایثار قربانی لحاظ اور مروت کا پیکر بنا کر معاشرے کے سامنے ایک مجسمہ بناتے ہیں اور اس مجسمے کی خوبصورتی کو قائم رکھنے میں اپنی عزت اور وقار کے لیے لازم تصور کرتے ہیں۔ موم کے مجسمے سے بنی ہماری بیٹیاں جب معاشرے کی حقیقتوں کا سامنا کرتی ہیں تو اکثر حیرت اور دکھ کی شدت سے منجمد ہوتے رویے ان کی زندگی کا حصہ قرار پاتے ہیں۔ گھر کے سکون کی نرم چادر جب کھنچتی ہے تومعاشرے کی گرم ہواوں کے تھپڑے زیادہ شدت سے محسوس ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ بھی عجب نحج پر اپنے اصول مرتب کررہا ہے۔ ہم لڑکیوں کو پڑھانے لکھانے کے تو حامی ہوگئے لیکن اُن کا زبان کھولنا ہمیں کسی صورت برداشت نہیں۔ اپنے گھر کی بیٹی کے ساتھ ہمارا رویہ کچھ بھی ہو لیکن باہر نکلنے والی عورت کو اکثر پبلک پراپرٹی تصور کیا جاتا ہے۔

آپ میں سے اکثر یہ تحریر پڑھ کر شاید ناگواری کے احساس میں مبتلا ہو جائیں، لیکن یقین جانیے ایسا ہی ہے۔ ہم ان برائیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ان پر بات کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے آس پاس بکھری نظر آتی ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھنے جانے والی معصوم بچیاں ہوں یا اپنے فکرِ روزگار میں الجھی خواتین ہوں نجانے کتنے ہی زخم ہراساں کرنے کے باب میں لکھے جاتے ہیں اور زبان پر قفل اس لئے لگا لیا جاتا ہے کہ کہیں ہمیں ہمارے اس حق کو جو ہم نے بہت مشکل سے چھین کر معاشرے سے حاصل کیا ہے واپس نہ لے لیا جائے۔ اور کچھ ہونے کی کسر باقی تھی جو باپ کا درجہ رکھنے والے اساتذہ کے گھناونے رویے کی صورت میں بھی سامنے آگئی۔ اور یہ کوئی اسکول میں پڑھانے والے اساتذہ نہیں تھے یونیورسٹی میں پڑھانے والے اعلی تعلیم یافتہ مرد تھے۔ اس سب کے پیجھے ہمارے معاشرے میں پنپنے والی اس سوچ کی کارفرمائی ہے جو عورت کے حوالے سے ہم رکھتے ہیں۔

بہت آرام سے اپنے دامن کو بچا کر نکل جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم تو ایسے نہیں ہیں ناں، تو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے، اگر کوئی ایسا ہے تو خداسے ہدایت دے۔ لیکن ایسا نہیں ہے معاشرے کی برائیوں سے آنکھیں چُرا کر آگے نکل جانا دراصل اس سے بڑی برائی ہے جو برائی آپ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ معصوم لڑکیوں سے انھیں امتحان میں پاس کرنے کی شرط لگا کر انھیں اپنے پاس بلا کر فائدہ اٹھانے کی لالچ لئے یہ بے ضمیر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی اپنی گھر میں موجود عورت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے اور وہ بھی انھیں لڑکیوں کی طرح چپ سادھ کر مجبوری میں کسی کو کچھ نہ بتانے کے دباؤ میں زندگی گزار سکتیں ہیں۔ ان کی زندگیاں بھی اپنے دائروں میں محصور ہوکر ان سے قوتِ پرواز چھین سکتی ہیں۔ اور اس دائرے کی شکستگی کا بوجھ ان موم کے مجسموں کے لیے اٹھانا مشکل ہوجائے گا جو مجسمے بڑے پیار سے گھر کی چار دیواری میں بنائے گئے تھے۔ ہم چونکہ بچیوں کو ایسے تربیت دیتے ہیں کہ بدزبانی دلیری اور بے لحاظی ان کو چھو کر بھی نہ گزر پائے تو نتیجتاً جب ان کے ساتھ غلط ہو رہا ہوتا ہے وہ تب بھی برداشت کے اعلی نمونہ بن کر بیٹھ جاتیں ہیں۔

میں چوںکہ دن میں دو دفعہ خود ڈرائیونگ کرکے نوکری پر جاتی ہوں تو روزانہ ایسے کتنے ہی لوگ مجھے نظر آتے ہیں جو عورت کے حوالے سے اپنی سوچ کی گندگی کو نہ ظاہر کر پاتے ہیں اور نہ ہی چھپا پاتے ہیں۔ جب آپ کسی برے فعل کو اپنی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھیں اور آگے بڑھ جائیں تو یاد رکھیے گا کہ کل وہی سب کچھ آپ کے اپنے گھر کے فرد کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ کہنے کو ہم سب کی زندگی کے دائرے مکمل میں لیکن کہیں نہ کہیں غور کیجئے کہ ہم نے اپنی بیٹیوں کے معاملے میں یہ دائرے نامکمل چھوڑ دیے ہیں۔ بیٹی ایک نعمت ہے اسے بولنے کی اجازت دیجئے تاکہ اگر اس کے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہے تو وہ آپ کو اعتماد میں لے کر اپنااحوال بیان کر سکے۔ ورنہ معاشرے سمیت آپ کے اور آپ کی بچی کے درمیان بھی ایک طویل خلیج حائل ہو جائے گی۔ آخر وہ ایسی غلطی کا خمیازہ بھگتے ہی کیوں جو اُس نے کی ہی نہ ہو۔ یاد رکھئے بے باکی اور حساب بے باق کرنے میں فرق ہے۔

عورت جس روپ میں ہو عزت کیے جانے کا قابل ہوتی ہے۔ وہی عورت جس کے بطن سے ہمیں پیدا کیا گیا، وہی عورت جو اپنے سینے سے رزق اپنے بچوں کے منہ میں ڈالتی ہے۔ وہی عورت جو بولنا سکھاتی ہے۔ ماں! رب کی رضا سے رب کا زمین پر اتارا جانے والا ایک وہ نمائندہ جسے شاید رب نے اپنے ہونے کا یقین دلانے کے لیے زمین پر پیدا کیا کہ دیکھو تمھارا رب اتنا رحیم و کریم اور اتنا مہربان ہے جیسے تمھاری ماں۔ رب کی محبت کو ماں کی محبت سے تشبیہہ دی گئی اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ تمھارا رب تم سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ استاد جیسے باپ کا درجہ حاصل ہے ان کی طرف سے ایسے ناقابلَ برداشت رویے کی جتنی مزاحمت کی جائے وہ کم ہے۔ میں خود تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوں لیکن چند اساتذہ کی وجہ سے ہم سب کی گردنیں شرم سے جھک گئی ہیں۔ احساس درد کی شدت سے روح کانپ جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کی قدریں متعین کردی گئی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت اپنی زبان بند رکھے اور ہم اُسی دائرے کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ کائنات کے ہر مظہر کو ننگی آنکھ سے دیکھنے کا حوصلہ رکھیے پھر آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارا معاشرہ کس حد تک اخلاقی پستی کا شکار ہوچکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).