خود فریبی سی خود فریبی ہے


اس کے ہاتھ بہت تیزی سے چل رہے تھے۔ بیش قیمت جیولری پہن کر برانڈڈ پرفیوم سے اپنے آپ کو مہکا کر اس نے ملازمہ کو آواز دی کہ اس کے نئے سینڈلز جو اس نے اس ریڈ اینڈ گولڈن ساڑھی کے ساتھ میچنگ خریدے تھے۔ وہ نکال کر لائے۔ ان کو پہن کر اس نے ایک بار پھر آیئنہ میں اپنا جائزہ لیا وہاں سے جو جواب آیا اس نے اس کیصراحی دار گردن کواور بلند کردیا۔ وہ اٹھلاتی ہوئی سیڑھیاں اترنے لگی۔ جس کی خاطر یہ سب اہتمام کیا تھا اس کے انتظار میں ٹہلنے لگی۔ اورہمیشہ کی طرح اس نے اسے انتظار کی کوفت میں مبتلا نہیں کیا۔ اس کے سجے سنورے سراپے پر نگاہ ڈالتے ہی وہ بے خود سا ہو گیا۔ اس کا آنکھوں میں ایسی دیوانہ وار محبت کا سمندر موجزن تھا۔ جو اس کے پیاسے صحرا جیسے دل کو جی بھر کر سیراب کر دیتا تھا۔ اس کا مانوس لمس اسے کسمسانے پر مجبور کر دیتا تھا۔ اس کا وارفتگی سے اس کے چہرے کو تکنا اسے اندر ہی اندر نہال کر دیا کرتا تھا۔

وہ جو اس کی دل کی پہلی خواہش تھی۔ وہ جو اس کی آخری تمنا تھی۔ جس کا ساتھ پانے کے لیے اس نے تہجد کا بھی ناغہ نہ کیا۔ اپنے پروردگار سے اس قدر تڑپ تڑپ کر اسے مانگا کہ خدا کی رحمت نے ان کو ایک دوسرے کا لباس بنا دیا۔ آج ان کے ساتھ کو پانچ سال مکمل ہو گئے تھے اور اسی دن کو مزید یادگار بنانے وہ ڈنر پر باہر جا رہے تھے۔ آج اس نے اپنی من چاہی شریک حیات کے لیے اس کی پسند کا تحفہ لیا تھا۔ ابھی وہ اپنے افسانے کو یہاں تک ہی لکھ پائی تھی۔ کہ اچانک اس کے مجازی خدا کے چیخنے اور چلانے کی آوازوں نے اس کی توجہ اس کی طرف مبذول کروا دی۔ وہ حسب عادت غصے میں تھا۔ اور منہ سے مغلظات کی بارش عروج پر تھی۔ اس کی دل کی دھڑکن خوف سے تیز ہو چکی تھی۔ اور سر چکرانا شروع ہو گیا تھا۔ تیز تیز چلنا چاہا تو قدم انکاری ہو گیئے۔ لیکن نہ جانا اس کے اشتعال کو مزید بھڑکا سکتا تھا۔ سو ڈرتی ڈرتی قریب پہنچی کہ معلوم کرئے کہ ماجرا کیا ہے؟ اس کے ہاتھ میں آج شام کی تقریب میں پہنے جانے والے کپڑے تھے۔ جو اس نے بڑی جان لگا کر استری کر کے لٹکائے تھے۔

پتہ چلا کہ ٹائی ساتھ میچنگ نہ ہونے پر موصوف کا غضب بھڑکا ہے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے زبان کھولی کہ مجھے یہ گرے ٹائی زیادہ مناسب لگ رہی تھی۔ اس لیے یہ نکال دی۔ تو اس نے وہ ٹائی زور سے اس کے منہ پر پھینک کر کہا کہ جاھل عورت! تیرے پورے خاندان میں کسی نے کبھی اتنی بڑی تقریب میں شرکت کی ہے؟ کس نیچ خاندان سے اس گھٹیا اور کم عقل عورت کو اٹھا لایا ہوں۔ جو کام بھی کرتی ہے الٹا۔ پتہ نہیں کب تک یہ عذاب مجھے جھیلنا ہے۔ ہر اچھے موقعے پر آکر میرا موڈ ستیاناس کر دیتی ہے۔ پرے ہٹ منحوس عورت! تیرے ساتھ رہتے ہوئے کوئی خوشی و مسرت کا لمحہ میرے نصیب میں نہیں اگر بچوں کا خیال نہ ہوتا تو کب کا تین حرف کہہ کر دفعان کرتا تجھے اپنی زندگی سے۔ ہنہ

بکتا جھکتا وہ کمرے سے باہر جانے لگا کہ اچانک فون کی بیل بجی اس نے فون کان سے لگایا تو آگے سے اس کا مینیجر تھا جو اس سے ایک ایوارڈ تقریب میں شرکت کے لیے ملے دعوت نامہ کا بتا رہا تھا۔ اور یہ بھی آپ نے پچھلے ہفتے جو ویمن ڈے کے موقعے پر عورتوں کے حقوق کے اوپر تقریر کی تھی۔ اس کے میڈیا میں بہت چرچے ہیں۔ لوگ آپ کو سننا چاہتے ہیں۔ آپ جیسے مرد جو عورت کے حقوق کے محافط ہیں۔ وہ تفاخر کے احساس سے مغلوب ہو کر اپنی تعریف سن رہا تھا۔ کال بند کے اٹھا تو بیوی کو سامنے پا کر اسے زور سے دھکا دے کر باہر نکل گیا۔ اور بیوی کے سامنے اس کی ایک فین کا خط کھلا پڑا تھا۔ جس میں اس نے لکھا تھا کہ اب سمجھ میں آیا کہ آپ محبت کے موضوع پر اتنا اچھا کیسے لکھ لیتی ہیں۔ کیسے آپ کے ناولز کا ہیرو اتنی عزت کرنے والا اور اپنی محبت کا احترام کرنے والا ہوتا ہے۔ آپ کے میاں کی تقاریر سن کر ان کے عورت کے بارے میں خیالات سن کر احساس ہوا کہ آپ کی تحریر سچائی پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ بہتی آنکھوں اور سن دماغ سے وہ سب پڑھ رہی تھی۔ اور سوچ رہی تھی کہ کاش وہ سچ لکھتی کاش! کاش!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).