کچھ دنوں کے لیے نہ میں کسی کی بیوی اور نہ ہی ماں!


ہر چوائس
کیا آپ کبھی اسپیتی گئے ہیں؟ یہ ہندوستان کے شمال میں ہمالیہ پہاڑ کی گود میں ایک وادی ہے، جہاں چند لوگ ہی آباد ہیں۔

وہاں کوئی موبائل نیٹ ورک نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں وہاں جاتی ہوں۔ وہاں میں اپنی زندگی آزادانہ طور پر کھل کر جینے کے لیے جاتی ہوں۔

ہم دو جوان خواتین کے ساتھ ہمارا ڈرائیور تھا۔ مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے جب اس نے ہمیں کاغذ کی پیالی میں شراب دی تھی۔

شکر ہے کہ اس وقت ہم نے زہر کی طرح تلخ شراب چکھنے کا فیصلہ کیا اور ہمیں مزا آیا۔ میں کار کی چھت پر بیٹھی تھی اور سرد ہوا کے جھونکے میرے جسم کے ساتھ میری روح کو چھو رہے تھے۔

30 سال کی عمر میں ایک متوسط طبقے کی شادی شدہ عورت کے لیے یہ سب کچھ تقریبا ناممکن سا تھا۔ انجان راہوں پر، اجنبی لوگوں کے درمیان اپنے شوہر اور گھر کی فکروں سے دور۔

لیکن میں نے ایسا صرف اس لیے نہیں کیا کیونکہ مجھے اس میں لطف آیا۔ ہر سال دو سال کی مدت میں گھر سے دور کسی ایسی جگہ جانا جہاں موبائل نیٹ ورک نہ ہو اس کے لیے میری اپنی وجوہات ہیں۔

میں اور میرے شوہر دونوں فنکار ہیں اور سیر و سیاحت ہم دونوں کا شوق ہے۔ لیکن جب بھی ہم ایک ساتھ کہیں جاتے ہیں تو وہ مجھے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

تمام فیصلے وہی کرتے ہیں۔ مثلا کس گاڑی میں جانا ہے، کب جانا ہے، کہاں ٹھہرنا ہے، کونسا ہوٹل، سیکورٹی یعنی سب کچھ۔ وہ میری رائے بھی لیتے لیکن وہ صرف اپنا فیصلہ سنانے کے لیے ہوتے ہیں۔

ہوٹل کے کمرے میں مجھ سے پہلے وہ خود جاتے ہیں اور کمرے کی جانچ پڑتال کرتے ہیں، وہ پہلے مینو کارڈ لیتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مجھے کیا چاہیے۔ تالا لگانے سے سامان اٹھانے تک وہ سب کام کرتے ہیں۔

میں ان کے لیے ایک ذمہ داری ہوں اور وہ فیصلہ کرنے والے۔ اب بس بھی کریں!

واقعتاً مجھے ایک وقفے کی ضرورت تھی۔ میرے بیٹے کی پیدائش کے بعد مجھے اس کی زیادہ ضرورت محسوس ہوئی۔ میرا کام کرنا اور باہر نکلنا کم ہو رہا تھا لیکن میرے شوہر کے لیے سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا۔

پھر میں نے سوچا کہ میں تنہا ہی باہر جاؤں گي۔ ہم دونوں نے اتفاق کیا کہ وہ چند دنوں کے لیے گھر میں رہیں گے اور بچے کی دیکھ بھال کریں گے۔
ہر چوائس

شوہر کے بغیر میرا پہلا سفر کافی حد تک منصوبہ بند تھا۔ لیکن تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں انھیں اپنی معلومات دیتے دیتے تنگ آ گئی۔ یوں لگا مجھ پر نظر رکھی جا رہی ہے، میری نگرانی ہو رہی ہے۔ بہر حال مجھے یہ پتہ تھا کہ یہ میری سکیورٹی کے لیے ہی تھا۔

لیکن پھر میں نے ایسی جگہوں کی تلاش شروع کر دی جہاں موبائل نیٹ ورک نہ ہو۔

میرے مطابق، ہر چھوٹی چھوٹی چیز پر گھر فون کرنا اور پوچھنا کہ کھانا کھایا کہ نہیں، ہوم ورک کیا یا نہیں، یا پھر گھر کے بارے میں سوالات کا جواب دینا میرے لیے قطعی سیر و سیاحت سے لطف اندوز ہونا نہیں تھا۔ میں خوشی کی تلاش میں گھر سے نکلی تھی۔

یہ سچ ہے کہ میں متوسط طبقے کی ادھیڑ عمر کی شادی شدہ خاتون اور ایک سات سالہ بیٹے کی ماں ہوں۔ لیکن کیا یہی میری شناخت ہے؟ ایک بیوی اور ماں؟ اور کیا یہ کوئی اصول ہے کہ ایک شادی شدہ خاتون کو اپنے شوہر کے ساتھ ہی جانا چاہیے؟

جب میں بھوٹان گئی تھی اسی وقت میرے بیٹے کے سکول میں ٹیچر پیرنٹس میٹنگ تھی۔ میرے شوہر اس میٹنگ میں گئے۔ بعد میں انھوں نے مجھے اپنے بیٹے کے دوست کی والدہ سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا۔

انھوں نے میرے شوہر سے پوچھا: ‘آپ کی بیوی کہاں ہے؟’ میرے شوہر نے کہا: ‘وہ شہر سے باہر گئی ہیں۔’

انھوں نے کہا: ‘اوہ۔۔۔ کام کے سلسلے میں؟’ میرے شوہر نے کہا: ‘نہیں، بس یوں ہی، گھومنے۔’

حیران کن انداز میں انھوں نے کہا: ‘کیا واقعی؟ آپ کو اکیلا چھوڑ کر؟’ انھوں نے یہ باتیں اس انداز میں کہیں جیسے میں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا ہو!

میرے شوہر نے اس واقعے کو ہنستے ہوئے مذاق کے انداز میں سنایا لیکن مجھے یہ قطعی مذاق نہیں لگا۔

کچھ مہینے قبل اسی خاتون سے ملاقات ہوئی۔ اور ہمارے درمیان کچھ اسی طرح کی بات ہوئی۔ اس وقت ان کے شوہر ‘موٹر سائیکل کی مہم’ پرگئے تھے اور وہ مجھے فخر کے ساتھ بتا رہی تھی۔

اس وقت میں نے ان سے یہ نہیں پوچھا: ‘کیا وہ آپ کو اکیلا چھوڑ گئے؟ میرا مطلب آپ کو چھوڑ دیا؟”

وہ تنہا ایسی نہیں ہیں۔ بہت سے لوگوں کو خواتین کا تنہا سیر و سیاحت کے لیے جانا عجیب لگتا ہے اور میرے خاندان کے بعض ارکان کے لیے بھی یہ عجیب ہے۔

جب میں نے پہلی دفعہ اکیلے جانے کا فیصلہ کیا تو میری ساس کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ لیکن میرے شوہر یہ سمجھتے ہیں کہ میرا اکیلے جانا کیوں ضروری ہے۔ انھوں نے میری ساس کو سمجھایا تو پھر انھوں نے مخالفت نہیں کی۔

میری اپنی ماں ابھی تک میرے اس فیصلے کو قبول نہیں کر سکی ہے۔ میں اس بار گھومنے نکلی تو انھیں نہیں بتایا۔
ہر چوائس

بعد میں انھوں نے فون کیا اور پوچھا: ‘تم کہاں ہو؟ میں کل سے تم سے بات کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔’ میں نے کہا: ‘ماں، میں ایک سفر پر ہوں۔’

‘پھر سے؟ کیوں؟ کہاں؟’ انھوں نے پوچھا۔

‘جی ہاں، بس یوں ہی۔۔۔ تھوڑا سا بریک چاہیے تھا۔ اس بار سڑک سے سفر پر نکلی ہوں۔’

پھر انھوں نے پوچھا: ‘ٹھیک ہے، تمہار بچہ اور اس کے والد کیسے ہیں؟’

‘وہ اچھے ہیں، وہ میرے ساتھ نہیں ہیں، وہ گھر پر ہیں۔’

انھوں نے کہا: ‘خدا کی قسم، تم کس قسم کی ماں ہو؟ تم اس طرح ایک چھوٹے بچے کو چھوڑ کر گھومنے کیسے جا سکتی ہو؟ خدا جانے کہ تمہاری ساس نے تمہیں کیونکر جانے دیا؟’

میں نے پوچھا: ‘ماں، کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں ایک کھونٹے سے بندھی رہوں؟’

یہ کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ میں جب بھی تنہا نکلی ہوں ایسا ہی ہوا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ انھیں ‘میرے اپنے وقت’ کی اہمیت کا پتہ ہے، انھیں اس بات کی زیادہ فکر ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

میں اپنے آپ کو تلاش کرتی ہوئی تنہا ہی نکلتی ہوں۔ مجھے اپنے خاندان کا خیال ہے لیکن میں اپنا خیال بھی کرتی ہوں۔ جب بھی میں گھومنے نکلتی ہوں میں اپنا خیال رکھتی ہوں۔

ہر بار جب میں تنہا باہر نکلتی ہوں میری ذمہ داری اور فیصلے سب میرے ہوتے ہیں۔ میں محفوظ رہتی ہوں لیکن میں کچھ نیا کرنے کی جرات بھی کرتی ہوں۔ میں اس وقت مختلف عورت ہوتی ہوں۔

ہمیں اسپیتی لے جانے والا ڈرائیور خوبصورت شخص تھا۔ اس نے ہمیں شراب پلائی۔ مجھے اس کے ساتھ بات کرنے اور شراب پینے میں لطف آيا۔ اس نے ایک خوبصورت پہاڑی لوک گیت بھی سنایا۔

گذشتہ سال جب میں اپنی خاتون دوست کے ساتھ گھومنے گئی تھی تو ہمارے ڈرائیور نے ہمیں ہوٹل میں چھوڑتے ہوئے پوچھاتھا: ‘کیا آپ کو کچھ اور انتظام چاہیے؟’

میں اب بھی اس بات کو یاد کرکے ہنستی ہوں کہ وہ شراب کے لیے پوچھ رہا تھا یا پھر جگولو (مرد خدمتگار) کے لیے۔

اس قسم کا تجربہ اور حقیقی زندگی سے آپ کی ملاقات اسی وقت ہوتی ہے جب آپ شادی شدہ ہونے کا لیبل ہٹا دیں اور چند دنوں کے لیے صرف ایک عورت نظر آئیں، نہ کسی کی ماں اور نہ بیوی۔

(یہ کہانی مغربی ہند میں رہنے والی ایک خاتون کی زندگ پر مبنی ہے جس نے بی بی سی کی نمائندہ اروندھتی راناڈے جوشی سے بات کی۔ خاتون کی خواہش پر ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔ اس سیریز کی پروڈیوسر دویا آریہ ہیں)

اس سیریز کے دیگر حصےمیں معذور تھی، میرا دوست نہیں لیکن ہم نے شادی کئے بغیر برسوں محبت کیشوہر کو بتائے بغیر نس بندی کرا لی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp