کھانا نہ گرم کرکے دیں، گرم جوشی تو دکھائیں


میری والدہ اسکول میں پڑھاتی تھیں، اور اہلیہ بھی ملازمت کرتی ہیں۔ امی کا روز کا معمول تھا، میرے اور میری بہن کے لیے ناشتا بنانا، ہمیں اسکول کے لیے تیار کرنا، اور ہمارے ساتھ ہی گھر سے نکلنا۔ یہی احوال میرے بچوں کی ماں‌ کا ہے۔ اسکول سے واپسی پر امی کا ہم بہن بھائی کے لیے دُپہر کا کھانا تیار کرنا، چاہے گرمی ہو سردی ہو؛ تھکی ہوئی ہوں، یا بیمار ہوں۔ ہم چھوٹے تھے تو کام والیوں کا رواج نہ تھا؛ اب گھریلو ملازمہ بھی ہے، لیکن بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے میری بیوی اٹھ بیٹھتی ہے، خواہ اسے ڈیوٹی پر جانا ہو، یا نہ جانا ہو۔ اسی طرح اسکول سے آنے پر بچوں کا بھرپور استقبال ہوتا ہے۔ ان کے لنچ باکس کھول کے دیکھے جاتے ہیں، کہ اسکول بھیجا جانے والا لنچ لیا یا بچا لائے۔ مزے لے لے کر پوچھا جاتا ہے، کہ کھانا کھانا ہے، لیموں پانی پینا ہے، یا من پسند شربت بنا کر دیا جائے۔

میں بیس اکیس سال کا تھا، کہ راتوں کو نیند نہ آنے کا مرض جاگا۔ شروع میں بہت ڈپریشن ہوجاتا تھا؛ رونے کو چیخنے کو جی چاہتا تھا۔ خود ہی علاج ڈھونڈ لیا۔ موسیقی سنتے، کتابیں پڑھتے صبح کردیتا۔ دھیرے دھیرے رت جگوں میں امان ملی۔ امی نے رات کے کسی پہر اٹھنا، دیکھنا کہ میں جاگ رہا ہوں، سونے کی کوشش کرنے کی تلقین کرنا۔ آیت الکرسی کے ورد کا درس دینا، کہ یوں نیند آ جاتی ہے۔ اس دوران پوچھ لینا، بھوک تو نہیں لگی، ”کھانا بناوں“؟ اگر کہوں نہیں، تو ان کا تاکید کرنا، ”جب بھوک لگے جگا دینا“۔

شادی کے بعد ایسے ہی کسی سیاہ شب میں جب ڈپریشن بہت بڑھا، کتابیں اور موسیقی دوا نہ ہوئیں، تو میں نے سوئی ہوئی شریک حیات کا کندھا ہلایا۔
”اٹھو“۔
”کیا ہوا“؟
”نیند نہیں آ رہی، مجھ سے باتیں کرو“۔
”ظفر؛ مجھے صبح ڈیوٹی پہ جانا ہے، سوجائیں“۔

ایسا ایک ہی بار ہوا ہوگا؛ مجھے خیال ہے، کہ کسی کو ناحق تکلیف دینا مناسب نہیں، سو آیندہ یہ حماقت سرزد نہ ہوئی۔ پتا نہیں کیوں یہاں عباس تابش کا یہ شعر یاد آ گیا۔
ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

جن دِنوں میں ایک نیوز چینل میں ملازمت کرتا تھا، میرا ایک شو رات بارہ بجے ختم ہوتا تھا۔ دفتری معاملات نپٹاکر کبھی دو بجے تو کبھی تین بجے گھر آتا۔ شاید ہی کبھی دوسری بار گھنٹی بجانا پڑتی ہو؛ امی دروازہ کھول دیا کرتیں۔ میں اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھا رہا ہوتا، تو وہ پوچھتیں، ”کھانا بناوں“؟ عموما کھانا کھا کر آتا تھا۔ جواب ہوتا، ”نہیں“۔ دوسرا سوال ہوتا، ”چائے“؟ چائے میں خود بنالیتا ہوں، اس لیے پینا بھی ہو، تو ان سے کہتا، ”میں بنالوں گا“۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بھوک لگی ہوتی، اور امی رات کے ان لمحات میں تازہ روٹی بنا کر دیتیں۔

ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ ڈور بیل دوسری یا تیسری بار بجانا پڑی، دروازہ امی کے بجائے میری نصف بہ تر نے کھولا۔ رات کے اس پہر نیند سے اٹھ کر دروازے تک آنا ہی احسان ہوتا ہے، میں بیرونی دروازے کو چٹخنی لگا کر، کمرے میں آتا تو وہ بستر پر میری جگہ چھوڑ کے سوچکی ہوتیں۔ اُس روز بھی میں کھانا کھا کر آیا ہوتا، لیکن ”کھانا کھانا ہے“؟ یہ نہ پوچھے جانے کی کسک رہ جاتی۔ ایک دِن یونھی تکرار کے واسطے عرضی ڈالی۔
”کبھی پوچھ ہی لیا کرو، کھانا کھانا ہے، کہ نہیں“۔
”دیر سے آتے ہیں، تو کھا کر ہی آتے ہوں گے۔ پوچھنے کا فائدہ“؟

میری والدہ پچہتر برس کی ہونے کو آئیں۔ چلتی ہیں تو لڑکھڑا جاتی ہیں۔ ٹانگوں میں مستقل درد رہتا ہے۔ انھیں ہنوز فکر ہے، میں صبح سونے سے پہلے کچھ کھا کر سویا کروں، کہ سارا دن خالی پیٹ سوئے رہنے سے ان کے بیٹے کو کم زوری نہ ہوجائے۔ دُپہر کو اٹھتا ہوں، تو بستر ہی میں گرما گرما کھانا مل جاتا ہے۔ شام ہی سے پوچھنے لگتی ہیں، ”بھوک تو نہیں لگی؛ کچھ بنا دوں“؟ میں کیسا ”لائق“ بیٹا ہوں، یہ داستان پھر کبھی سنادوں گا۔ وہ آج بھی رات کو ایک روٹی زائد بناکر رکھ چھوڑتیں ہیں، کہ شب کے کسی پہر بھوک لگے تو کھا لینا۔ میرے بیٹے کی بھی ایسی موج ہے۔ اُس کی ماں اس کا ایسا ہی خیال رکھتی ہے، جیسے میرا میری ماں۔

اور ہاں! آپ کو اپنی گیارہ سالہ بیٹی کا قصہ سنانا تو بھول ہی گیا۔ جب میں گھر آتا ہوں تو بڑے شوق سے پوچھتی ہے، ”ابو آپ کے لیے چائے بناوں“؟ میں آپ کو بتا نہیں سکتا، اس کے ایسا پوچھنے سے مجھے کتنی راحت ملتی ہے۔ میری بیٹی کے لہجے میں ویسے ہی چاہت ہے، جیسی میری ماں کے لہجے میں۔

بیٹے، بھائی، ابو، یہ مرد تھوڑی ہوتے ہیں۔ مرد وہ ہوتے ہیں، جن کے لیے کھانا گرم کرنے سے پاپ لگتا ہے۔ بہن، بیٹی، ماں؛ یہ عورتیں تھوڑی ہوتی ہیں؛ عورتیں وہ ہوتی ہیں، جن کی غیر سے شکایت کی جاسکے۔ خدا میری ماں اور میرے بیٹے کی ماں‌ کو تادیر سلامت رکھے۔ اس کی بہنوں، میری بیٹیوں کو شادمان رکھے۔ ”اپنا کھانا خود گرم کرو“۔ مجھے کوئی ایسا کہے تو میں جواب دوں گا، ”میں تو نہیں کرتا بھئی؛ مجھے کھانا گرم کرکے دینے والیاں سلامت ہیں“۔

”اپنا کھانا خود گرم کرو“۔ مجھے یقین ہے اس نعرے کی حمایت کرنے والی گھر جا کر اپنے بچے کو ضرور بالضرور کھانا گرم کر دیتی ہوگی؛ کیوں کہ اسے اپنی اولاد سے پیار ہے۔ تھوڑی سی گرم جوشی اس مرد کو بھی عنایت ہو، جس نے اس کی کوکھ کو بیج دیا۔

پس نوشت: میری شریک حیات، میرے لیے سب کچھ ہے۔ میری ناکامیوں میں‌ ساتھ کھڑی ہونے والی، میری کوتاہیوں کو نظرانداز کرنے والی؛ مجھے حوصلہ دینے والی؛ میرا یقین، میری طاقت؛ میرا مان؛ وہ میرا سب کچھ ہے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں، اس میں اس کی اعلا ظرفی، کشادہ دلی، اس کی محبت، اس کا تعاون شامل احوال ہے۔ مندرجہ بالا تصویر دکھانا ایک خاص تناظر میں ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran