نوازشریف ایک سیاسی دیوداس


نوازشریف کے بقول وزیراعظم خاقان عباسی نے ان سے کہا کہ آپ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے میرے ساتھ چلا کریں، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ جو میرے ساتھ ہوا اس کے بعد منصوبوں کا افتتاح کرنے کا دل نہیں چاہتا۔

ہم نے عارضی وزیراعظم اور تاحیات قائد کے اس مکالمے کو تصور کیا تو منظر کچھ یوں بنا:
”او میں کیا میاں صاب، کی حال نیں، میں کیا ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے چلیے“
”میں نے نئیں جانا“

”اوئے قربان جاواں، اننا غصہ چنگا نئیں، او کوئی نئیں، جوا ہوا مٹی پاؤ اور میرے نال آؤ“
”او مت چھیڑ ملنگاں نوں، میں نے نئیں جانا اا اا اا ا“
”اوئے میں صدقے اپنے تاحیات قائد کےمیاں صاب! فکر نہ کریں میں پابندی لگادوں گا کہ افتتاحی تقریبات میں سب ننگے پاؤں آئیں، تُسی چلو تو۔ “
”او وہ بات نئیں ہے، بس میرا دل ٹوٹ گیا ہے“
”او خیر، میاں صاب، چلو تو، رونقیں دیکھ کر دل لگے گا، کدی ساڈی وی سُن لیا کرو۔ “
”میں نے نئیں جانا نئیں جانا نئیں جانا“

نوازشریف کو پاؤں پٹخ کر روتے دیکھ کر وزیراعظم اُلٹے پیر واپس چلے گئے ہوں گے۔
میاں نوازشریف کے ”دل نہ چاہنے“ سے یہ بات تو غلط ثابت ہوئی کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، سیاست کی کھوپڑی میں دماغ ہونے نہ ہونے کا عقدہ کُھلنا ابھی باقی ہے لیکن دل ہونے کا مسئلہ حل ہوا۔

نوازشریف کے دُکھی دل کی صدا سُن کر ہمارا دل بے تاب ہوگیا ہے۔ ان کا دل ٹوٹنے پر ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہاور لے ”آئیے“ بازار سے گَر ٹوٹ گیاکیوں کہ دل بازار میں ملتا تو میاں صاحب کے لیے خریدنا کیا مسئلہ تھا۔ ہم ان سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ حضور! دلبر داشتہ نہ ہوں، لیکن پھر ہوسکتا ہے کہ جواب میں وہ کہیں، ”اگرمیں دل برداشتہ ہوتا، تو آج دلبرداشتہ نہ ہوتا۔ “
میاں صاحب کل جن کے دل دار تھے، دل نشیں تھے، دل کا سُرور تھے، آج اُن کے دل سے ایسے اُترے ہیں کہ برداشت ہی نہیں ہورہے۔ دل سے اُترنے کے بعد تو وہ اترتے ہی چلے گئے۔ پہلے ان سے وزارت عظمیٰ چھینی گئی، پھر مسلم لیگ ن کی قیادت، بلوچستان کی حکومت اور سینیٹ کی سیادت سے بھی محروم کردیا گیا۔ چھیننے جھپٹنے کا یہ عمل جاری رہا تو لگتا ہے ایک دن نوازشریف کے پاس بس دل وجاں ہی بچےں گے، اور دل بھی ٹوٹا ہوا۔

نوازشریف کا ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریبات میں جانے کا دل نہ چاہنا سمجھ میں آتا ہے۔ اُن کے ہوتے ہوئے فیتہ کوئی اور کاٹے اور تختی پر نام کسی اور کا ہو، یہ دیکھ کر مُوا دکھا ہوا دل پھٹ نہ پڑے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ آپ کی سابق محبوبہ کا بھائی آپ سے کہے”چلو آپاں کی منگنی کی مٹھائی لینا ہے“ یا کسی کو اس کی معشوق کی شادی میں معشوق کے والد بزرگوار یہ کہہ کر بلائیں، ”ابے صبح سے آجائیو، تیری بہن کی شادی ہے بھئی، سب کام تجھے ہی کرنا ہے۔ “

اب یہ سوال مت کیجیے گا کہ دل شکستہ نوازشریف افتتاحی تقریبات میں نہیں جاسکتے تو اسی ٹوٹے ہوئے دل کے ٹکڑے سنبھالے انتقامی، احتجاجی اور انقلابی جلسوں میں کیسے پہنچ جاتے ہیںِ؟ ہمارے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ دُکھیارے میاں صاحب کا جانے کا نہیں بل کہ تالی بجانے کا دل نہیں چاہتا۔ اب ترقیاتی منصوبوں میں گئے تو تالی بجے ہی بجے، جلسوں میں تالیاں بجاتے نہیں بجواتے ہیں۔ ویسے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ان بی بیوں کی حکمت عملی پر عمل کریں جو کوئی کام کرنا نہیں چاہتیں تو ہاتھ میں مہندی لگا کر بیٹھ جاتی ہیں، اور ہر ایک خود ہی سمجھ جاتا ہے کہان کے ہاتھوں میں منہدی لگی ہے، کچھ پکانے کے قابل نہیں ہیں۔ میاں صاحب بھی افتتاحی تقریب میں جاتے وقت مریم اورنگزیب سے دونوں ہاتھوں پر مہندی کے خوب صورت سے ڈیزائن بنوالیں تو ایسی تقریبات میں ہاتھ دکھاکر تالی بجانے سے بچ جائیں گے۔ جب چھوٹا بھائی شوقیہ باربار ہاتھ پیلے کرسکتا ہے تو بڑا بھی مجبوراً اور ضرورتاً ایسا کیوں نہیں کرسکتا!

نوازشریف کی تقریروں میں شکوے شکایات، ان کا رندھا ہوا لہجہ اور گلے سے نکلتی روہانسی آواز ہی ہم جیسے نرم دل والوں کی آنکھیں نم کرنے کے لیے کیا کم تھیں کہ اپنی دل شکستگی کا اعلان کرکے انھوں نے خود پر ہمارے رحم، ترس اور ہم دردی میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ وہ ہمیں سیاسی دیوداس نظر آرہے ہیں۔ بولی وڈ کی اس مشہورومقبول فلم کے کردار دیوداس کا مسئلہ بھی یہی تھا کہ اس سے سب کچھ چُھڑوایا جارہا تھا۔ اسی لیے وہ ٹُن حالت میں کہہ اُٹھا تھا، ”بابو جی نے کہا گاؤں چھوڑ دو، سب نے کہا پارو کو چھوڑ دو، پارو نے کہا شراب چھوڑ دو، آج تم نے کہہ دیا حویلی چھوڑ دو، ایک دن آئے گا جب وہ کہیں گے دنیا ہی چھوڑ دو۔ “

فلمی دیوداس کو گاؤں چھوڑنے کا حکم بابو جی نے دیا تھا اور ہمارے سیاسی دیوداس کو یہ فرمان ”بابا“ نے سُنایا۔ پاکستان کی اس سیاسی فلم میں پارو کا کردار سیاست کو ملا ہے، بھئی ظاہر ہے جو پیاری، وہی پارو۔ ہمارے دیوداس سے اس پارو کو چھوڑنے کا کہا گیا اور اب یہ پاکستانی دیوداس سے رورو کر کہہ رہی ہے اقتدار کا نشہ چھوڑ دو ورنہ مارے جاؤ گے۔ اللہ ہمارے دیوداس پر وہ وقت نہ لائے کہ اسے رائیونڈ کی حویلی چھوڑنے کے الفاظ سُننے پڑیں۔

فلمی دیوداس اور ہمارے سیاسی دیوداس میں فرق بس اتنا ہے کہ وہ شراب پی کر غم غلط کرتا تھا، لیکن ہمارا والا شریف ہے اور ضیاءالحق جیسے مردمومن کے سائے میں پروان چڑھا ہے، اس لیے وہ کوئی حرام چیز پینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، وہ غم میں ڈوب کر بھی لسی پی رہا ہے یا جلسوں میں اپنے سامعین کا خون۔

نوازشریف نے ظالم سیاست کے بیچ میں دل کا معاملہ لاکر صورت حال کو بڑا شاعرانہ، رومانوی اور فلمی کردیا ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ اب وہ اسے فلمی انداز ہی میں چلائیں اور جلسوں میں تقریریں کرنے کے بہ جائے دل جلے گانے گائیں، جیسے: دل ایسا کسی نے میرا توڑا، بربادی کی طرف ایسا موڑاغیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم اے جان وفا یہ ظلم نہ کراک بے وفا سے پیار کیا، اسے گلے کا ہار کیا، ہائے رے ہم نے یہ کیا کیا وہ کیا کیادل کا کھلونا ہائے ٹوٹ گیا۔ “ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ ان کے گانوں بھرے جلسے پہلے سے کہیں زیادہ کام یاب ہوں گے اور ان کے جلسے میں لوگ نعرے لگاتے ہوئے آئیں گے، ”میاں دے گانے وجن گے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).