علی وزیر: طالبان کے خلاف مزاحمت اور ریاستی مظالم کی مجسم تصویر


علی وزیر جوں ہی تقریر کرنے کے لئے زبان کھولتے ہیں تو الفاظ لاوے کی طرح اگل کر نکلتے ہیں۔ درد، مظلومیت، لاچاری اور بے بسی سے اس لاوے کا خمیر اٹھا ہے۔

جتنا ٹھہراؤ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کے لہجے میں ہے اتنا ہی تناؤ اس موومنٹ کے روح رواں علی وزیر کے خون میں گردش کرتا ہے۔ منظور پشتین قبائلی علاقے میں فوج اور طالبان کے مظالم کے جو قصے سناتے ہیں ان کے پہلو میں بیھٹے علی وزیر ان مظالم سہنے کی مجسم تصویر ہیں۔

اگر کوئی مجسمہ ساز دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پشتونوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو مجسمے کی صورت میں دکھانے کی خواہش کرے اور اس سے عملی جامہ پہنائے تو جو مجسمہ تخلیق ہوگا اس کی شبہہ علی وزیر جیسے ہوگی۔

طالبان پروجیکٹ کی پہلی ٹارگٹ کلنگ 2003 میں جنوبی وزیرستان میں فاروق وزیر کی ہوتی ہے جو علی وزیر کے بھائی تھے۔ فاروق وزیر کا گناہ کیا تھا۔؟ گناہ یہ تھا کہ انہوں نے طالبان اور غیرملکی دہشت گردوں کے پروجیکٹ کی مخالفت کی۔

علی وزیر کا خاندان احمد زئی وزیر قبیلے کے بااثر اور طاقت ور خاندانوں میں سے ہے۔ نظریاتی لحاظ سے قوم پرست اور دہشت گردی کے مخالف۔ فاروق وزیر اس فکر کے پہلے شہید بنے مگر آخری نہیں۔

ان کے قتل کے بعد طالبان نے ان کے بچوں کو بھی نہیں بخشا اور سکولوں میں جاجا کر اساتذہ سے علی وزیر کے خاندان کے بچوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں نے تعلیم کو خیرباد کہا۔ علاقے میں فوٹو شاپڈ تصاویر اور ایسی افواہیں پھیلائی گئیں کہ علی وزیر کا خاندان امریکہ کے لئے جاسوسی کرتا ہے۔ ان کے گھر کفن بھیج دیئے گئے لیکن وہ پھر بھی ڈٹے رہے۔  اس کے بعد 2005 میں علی وزیر کے والد ملک مرزا عالم کو دوبیٹوں اور دو بھتیجوں سمیت میں قتل کردیا گیا۔

جب ان کے جنازے اٹھائے جارہے تھے اس وقت علی وزیر علاقائی ذمہ داری کے تحت جیل میں تھے اور انہیں اس حال میں جنازوں میں شرکت کی اجازت دی گئی کہ ان کے ہاتھوں میں ہتکھڑیاں ہوں گی۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو ماں نے بغلگیر ہو کر تسلی دی کہ کوئی بات نہیں شیر جنم لیتے اور مرتے ہیں۔  کچھ عرصے بعد ہے پھر ان کے ایک اور بھائی اور تین دیگر رشتہ داروں کو ایک ساتھ قتل کیا گیا۔

علی وزیر کے گھر میں بالغ مردوں کی تعداد کم اور یتیم بچوں اور بیواوں کی زیادہ ہوگئی۔ ان کو نہ صرف ان سب کی کفالت اور پرورش کرنی تھی بلکہ ہر ایک کے چہرے پر ان کے باپ، بھائیوں اور چچا زاد بیٹوں کی دردناک یادیں اور اپنی بے بسی کندہ تھیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ طالبان کی مخالفت سے دستبردار نہیں ہوئے۔ ان کی افرادی اور قبائلی طاقت کو کمزور کرنے کے بعد طالبان نے ان کے معاشی قتل کا فیصلہ کیا۔

ایک طرف خاندان کے سترہ افراد سے جینے کا حق چھینا گیا تو دوسری طرف یتیموں اور بیواؤں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کی گئی۔ مقصد شاید یہی تھا کہ خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد کو بھیک مانگنے پر مجبور کرکے ان کی عزت اور وقار کو مٹی میں ملادیا جائے۔

 اس لئے انہوں نے پہلا وار جنوبی وزیرستان کے اعظم ورسک کے علاقے میں موجود علی وزیر کے پٹرول پمپ کی مسماری سے کیا۔ جب کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو بقول علی وزیر کے حملہ آوروں نے پٹرول پمپ کی اینٹیں اکھاڑ کر ان سے ٹوائلٹ بنوایا۔

جب مشال ریڈیو کے ساتھی شاہین بونیری نے علی وزیر سے پوچھا کہ ٹوائلٹ کیوں بنوایا گیا؟

تو بقول ان کے انہیں کہا گیا کہ یہ منافقین کی عمارت کی اینٹیں ہیں جن کی جگہ غلاظت کی علامت سمجھے جانے والی جگہ میں ہونی چائیے۔ اب دہشت اور نفرت کی انتہا دیکھئیے کہ اینٹوں کو بھی ٹوائلٹ میں چُن چُن کر سزا دی گئی۔

ان کے نو تعمیر شدہ بنگلے کو مسمار کیا گیا اور اعظم ورسک میں ان کے باغ پر زہریلے کیمیائی مواد کا سپرے کرکے فصل کو تباہ کیا گیا۔

ستمبر 2016 میں پولٹیکل انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز نے اجتماعی ذمہ داری کے قانون کے تحت وانا میں علی وزیر کی 120 دکانوں پر مشتمل مارکیٹ کو بموں سے اڑا کر تباہ کردیا۔ جنوبی وزیرستان میں ان کے خاندان کا افرادی اور معاشی قتل عام کے بعد جب برباد کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا تو علی وزیر کو آخری ذریعہ معاش سے بھی محروم کردیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے بنوں اڈے میں ان کے میں ٹرانسپورٹ ٹرمینل کو بھی بند کردیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بقول علی وزیر کے کہ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچنے کے بدلے ایک معاہدے کے تحت حکومت نے جو تاوان ادا کیا اس سے بھی انہیں محروم رکھا گیا۔

علی وزیر اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا الزام ریاست پر لگا رہے ہیں۔ ان کو دیوار سے لگایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود مطالبہ یہ ہے کہ انہیں گیس، بجلی، سڑک، سکول نہیں چائیے بلکہ آئین پاکستان میں زندہ رہنے کی جو ضمانت دی گئی ہے انہیں وہ حق دی جائے۔

بلکہ مشال ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران وہ اس حق میں ترمیم کرتے ہوئے اس حد تک گئے کہ جینے کا جو آئینی حق پنجاب کے کسی شخص کو سو فیصد حاصل ہے اس میں سے محض بیس فیصد ضمانت انہیں دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar