موجودہ سیاسی دنگل اور غالب خستہ حال کی بے بسی


اس وقت تمام سیاسی اور غیر سیاسی تیروں کا رخ میاں نواز شریف کی طرف ہے اور میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف بھی اپنے جلسہ عام سے لیکر میڈیا ٹاک تک اپنے خلاف تمام تر قوتوں کو للکارتے پھرتے ہیں کہ

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

وہ ووٹ کی طاقت کو ہی حکومتی طاقت بنا کے دم لیں گے۔ ایوان بالا میں اکثریت ہوتے ہوئے بھی میاں صاحب چیئرمین سینیٹ نہ لا سکے۔ بلوچستان کے پارٹی ممبران بھی گئے اور حکومت بھی۔ ابھی بھی میاں صاحب کا یہ گمان باقی ہے کہ راجہ ظفر الحق کو ووٹ کس نے نہیں دیا اپنے پارٹی کے ارکان نے یا پھر اتحادیوں نے؟ میاں نواز شریف اور سینیٹر حاصل بزنجو سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کو جمہوریت کو شب خون مارنے اور منہ کالا کرنا قرار دے رہے ہیں۔

دوسری طرف میاں صاحب اور حاصل بزنجو پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو چیئرمین سینیٹ کے لیے صرف راجہ ظفر الحق ہی ملے تھے اور بہت جلد ہی میاں صاحب آئی- جے- آئی- بھول گئے ہیں اور سینیٹر حاصل بزنجو کے لیے بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کا منہ اس وقت کالا کیوں نہیں ہو رہا تھا جب ان پر اصغر خاں کیس، مہران بنک سکینڈل میں لاکھوں روپے رشوت کا الزام لگا تھا۔

آج کل سب کو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ آصف علی زرداری اور عمران خان کی حکومتیں آنے والی ہیں اور کچھ بھی ہو جائے میاں صاحب کی اب ایک بھی نہیں چلے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کا وزیر اعظم تو کیا اب پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بننا مشکل بلکہ نا ممکن نظر آ رہا ہے ۔ میاں نواز شریف غالب کا شعر سنا کر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو مخاطب کر رہے ہیں

زندگی اپنی جب اس مشکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

آصف علی زرداری اور عمران خان غالب کے ساتھ ساتھ دربار میں پہنچنے کےلیے اردو کے دیگر اساتذہ کے بهي شاگرد بنے ہوئے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ میاں صاحب پوری زندگی اتنخابات مینیج کرتے رہے ہیں تو بھاری مینڈیٹ اگر ہم کریں تو جمہوریت کو خطرہ۔

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو مرے نامہ اعمال میں تھی

کہنے والے تو کہتے ہیں کہ صادق سنجرانی بھی تو سیاست دان ہیں جو چیئرمین بنے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے؟ جس پر افسوس کیا جا رہا ہے۔ انتخابات نام ہی ہے مینیج کرنے کا اگرچہ کوئی کر پائے۔ انوکھی بات تو تب ہوتی جب کوئی غیر سیاسی شخص چیئرمین سینیٹ بنتا۔

سوشل میڈیا پر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی کئی تصاویر گردش کر رہی ہیں جس میں آصف علی زرداری کے تصویر کے ساتھ سابق آمر جنرل ضیا الحق کی تصویر کا عکس دکھایا جا رہا ہے کہ زرداری صاحب نے جمہوریت اور بھٹو ازم کو دھوکا دیا ہے۔

مگر کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان مسلم لیگ ن یہ کام کرے تو رسم اگر پاکستان پیپلز پارٹی کرے تو دھوکا۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی اداروں پر سخت تنقید کو میڈیا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اتنی میینجمینٹ کے باوجود بھی میاں نواز شریف کو عوام میں آؤٹ کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام نظر آ رہی ہیں اور ابھی تک میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف اپنے سخت تر بیانیے پر قائم ہیں اور اسی بیانے پر انہیں آنے والے انتخابات میں پذیرائی مل سکتی ہے۔ کچھ عرصہ تو میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے لیے مشکل ہو سکتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے آپ کبھی بھی میاں نواز شریف کی سیاست کو دفن نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے غالب اور میر تو بادشاہ کے دربار میں اپنا کلام سناتے رہیں گے اور ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ایسے جوہر دکھائی گی جس کا نہ غالب کو پتہ چلے گا نہ ہی میر کو، پتہ تو تب چلے گا جب بہادر شاہ ظفر بھی دربار میں دوڑتا نظر آئے گا کہ اب تو آپ کی مہر تصدیق کی بھی ضرورت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).