سٹیفن ہاکنگ جیسے دماغ ہمارے ہاں کیوں پیدا نہیں ہوتے؟


محترم ذیشان ہاشم بھائی نے فیس بک پر سٹیفن ہاکنگ کی وفات پر سوال اٹھایا کہ ہمارے یہاں ایسے دماغ پیدا کیوں نہیں ہوتے اور اس حوالے سے تین وجوہات بیان کیں۔ پہلی کہ ہمارا تصور علم جدید نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ ہمارے یہاں تحقیق اور کتاب سے تعلق رسمی سا ہے اور تیسرا نقطہ اٹھایا کہ ہماری معیشت نالج بیسڈ نہیں ہے۔ میں ان کے ساتھ مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ بالکل پاکستان ان مسائل کا شکار ہے۔ لیکن بصد احترام اختلاف کروں گا کہ صرف یہی نکات پاکستان میں سٹیفن ہاکنگ جیسے دماغ پیدا ہونے سے نہیں روک رہے بلکہ ان سب سے پہلے اور بنیادی بات آزاد خیالی ہے، اور پاکستان میں آزاد خیالی کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اور میرے نزدیک یہ اہم ترین وجہ ہے جس کی بدولت پاکستان میں سٹیفن ہاکنگ جیسے دماغ ناپید ہیں۔

احقر کے نزدیک سٹیفن ہاکنگ ایک آزاد ماحول پیدا کرتا ہے۔ جس میں سب سے پہلے ہے خیال کا پنپنا اور پھر اس خیال کا اظہار اور اظہار کی آزادی۔ پھر ہے اظہار کی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنانا۔ کیونکہ خیال یا سوچ کوئی بھی رخ اختیار کر سکتی ہے۔ ایک تخلیقی سوچ توہین مذہب کی مرتکب بھی ٹھہرائی جا سکتی ہے۔ اور سائنس تو ہے ہی مختلف امکانات پر غور کرنے کا نام ہے، سائنسی اور تخلیقی سوچ عقیدت اور پہلے سے طے شدہ رستے پر نہیں چل سکتی، اسے پنپنے کے لیے محفوظ آزاد ماحول کی ضرورت پہلی شرط ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں آزاد خیالی کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔

اور یہی وہ بینادی رکاوٹ ہے جو پاکستان میں سٹیفن ہاکنگ پیدا نہیں ہونے دیتی، ورنہ کون جانے کہ پاکستان میں ایسے کتنے دماغ پیدا ہوتے ہوں گے لیکن تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں۔ ایسے دماغوں کے پرورش کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔ ایسے دماغ سانچوں میں رکھ دیے جائیں تو غیر پیداواری ہو جاتے ہیں۔ اور مخصوص نتائج دیتے ہیں۔ اور ہم تو حقیقتاً شاہ دولے کے چوہے پیدا کرتے ہیں۔

 میرا ماننا ہے کہ پاکستان میں آزاد خیالی کو تحفظ دیے بغیر سٹیفن ہاکنگ جیسے دماغ کی پرورش نہیں ہو سکتی۔ اور اگر کوئی ایسا دماغ سامنے آ بھی جائے تو ہمارا معاشرہ اسے قبول کرنے سے ہی قاصر ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالسلام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

آزاد خیالی کے لئے تحفظ بنیادی شرط ہے۔ ذیشان بھائی کے نکات ثانوی اور ذیلی سمجھے جا سکتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر میں نے اپنے تھیسز میں یوں اٹھانے کی کوشش کی کہ جدت یا اختراع (Innovation) آئیڈیاز کی بدولت وقوع پزیر ہوتی ہے جبکہ آئیڈیاز ایک تخلیقی دماغ کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اور تخلیقی دماغ آزادیوں کا متقاضی ہوتا ہے۔ اگر آزادیوں پہ پہرا بٹھا دیا جائے تو تخلیقی سوچ محدود ہوتے ہوتے مفقود ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جدت کو پنپنے کے لیے متنوع آئیڈیاز کی ایک مارکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر آزاد خیالی پر پابندی ہو تو یہ مارکیٹ سکڑ جاتی ہے اور جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔ جس سے جدت یا اختراع کا راستہ کٹ جاتا ہے۔

 اور یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا۔ پاکستان میں آزادی اظہار کو تحفظ کی بجائے اس پر قدغن ہے۔ اور یہ اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ آپ دوسرے سے ہٹ کے اپنا مذہبی نقطہ نظر بھی بیان نہیں کر سکتے سیکولر یا لبرل آئیڈیاز دینا تو کجا۔

اس میں اپنی ہی مثال دینا چاہوں گا۔ میں کوئی عالی دماغ شخص نہیں، بس ایک اوسط درجے کا طالب علم ہوں۔ جب میں نے پڑھنا اور سوال کرنا شروع کیا تو میرا سب سے پہلا سوال مسجد کے مولانا سے تھا، بات ابا حضور تک پہنچا دی گئی کہ بچہ “سوال کردا اے” اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ میرا سوال صرف یہ تھا کہ مولانا اگر میں تحقیق کے بعد آپ کے والا فرقہ چھوڑ دوں تو کیا آپ مجھے راہ راست پہ تسلیم کریں گے؟

میں تھوڑا بڑا ہوا۔ دوستوں کے ساتھ خیالات کا اظہار شروع کیا، کفر کے فتووں کا سامنا ہوا۔ صاحب میں اس وقت محض ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب وغیرہ کو پڑھا کرتا تھا۔ مجھے اپنے رشتہ داروں سے بھی ایسا ہی سننے کو ملا۔ یونیورسٹی پہنچ گئے وہاں تک آتے آتے ڈر اس قدر تھا کہ سوچ کہنا مشکل ہو گیا تھا اور یونیورسٹی میں بھی پہرا انتہائی کڑا تھا۔ استاد پڑھاتے پڑھاتے جب یہ کہے کہ جو پڑھ رہے ہو، وہ سب فضول ہے اور جو حتمی سچ ہے وہ لوح محفوظ میں درج ہے۔ اور اس بات کی تائید بھی پوری کلاس کردے تو ایسے میں کسی اور مسئلے پر اختلاف کی جرات کوئی کیوں کر اور کیسے کرے۔

 کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ یہ ایک عام سے طالب علم کا حال ہے اور ایسے کڑے پہرے میں سائنس کا طالب علم کیونکر سٹیفن بنے جبکہ سائنس نام ہی امکانات پر غور کا ہے۔ لہذا آزاد خیالی اور اس آزاد خیالی کا تحفظ بنیادی ضرورت ہے، جس پر اگر عمارت کھڑی کی جائے تو فائدہ مند ہے ورنہ ٹیڑھی دیوار پر کھڑی عمارت کی تزئین و آرائش بے سود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).